(اٹھائیس مئی، یوم تکبیر کی مناسبت سے لکھی گئی ایک تحریر)
تحریر : محمد عثمان جامعی
میں اپنے دوست کے تاثرات دیکھ کر حیران تھا۔
کالونی کی گلی میں اندھیرے سے سہمی ہوئی بلپوں کی پیلی روشنی میں اس کا سانولا چہرہ دمک اٹھا تھا
مشرقی پاکستان میں قیامت جھیل کر آنے والے اس کے خاندان نے اس ’’اکلوتے پاکستان‘‘ میں بھی کئی بار زبان کی بنیاد پر اپنے ہم زبانوں کا قتل عام ہوتے اور ریاست کو خاموش تماشائی بنے دیکھا تھا۔
سو جن رگوں میں کبھی ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ گردش کرتا تھا اب ان میں ریاست سے نفرت کا لاوا بہتا تھا۔
بانوے کے آپریشن نے اور اس دوران گھر پر پڑنے والے چھاپے نے اس خاندان کا درد اور بڑھادیا تھا، سو میرا ایم کیوایم سے وابستہ اور الطاف حسین کے عشق میں مبتلا دوست ردعمل کی انتہا پر تھا۔
وہ کھل کر ملک کے خلاف بات کرتا، پاکستان کے قیام کی نفی سے لے کر اس ملک کے ٹوٹنے کی خواہش تک۔۔۔رد اور انکار کی ایک تکرار تھی ہماری ہر گفتگو میں۔ میں کہیں کہیں اختلاف کے باوجود ہاں میں ہاں ملاتا۔ ظلم وجبر کے مناظر نے مجھے کب محب وطن رہنا دیا تھا۔
لیکن آج میں حیران تھا۔ خود پر بھی، اس پر بھی۔
دفتر میں جب ٹی وی اسکرین پر نوازشریف کو جوہری دھماکوں کا اعلان کرتے سنا تو نم آنکھوں کے ساتھ اٹھا اور کیا زوردار نعرہ لگایا تھا۔
اب میں اس کے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
جانے ہم نے ایک دوسرے سے کیا کہا، لیکن یہ یاد ہے کہ اس کے سانولے چہرے پر خوشی کی سرخی دور سے بھی پڑھی جاسکتی تھی، اس کی آنکھوں کی دمک چھلکی پڑ رہی تھی، ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ خوشی اور فخر سے بھر جانے والے اندروں کا حال سنا رہی تھی۔
وہ سر اٹھائے تھا، نہال تھا۔
میرا بھی یہی حال تھا۔
لگ رہا تھا کہوٹا کہ پہاڑ پر پھیلنے والا اجالا اس کے چہرے کو منور کر رہا ہے۔
وہ منظر آج پھر یاد آگیا، جس میں کھوکر میں سوچ رہا ہوں، جانے کیا کچھ سوچ رہا ہوں۔
Categories