Categories
قومی سیاست محمد عثمان جامعی

شہبازگل کا ناٹک۔۔۔میں دھوکا کھانے کو ترجیح دوں گا

تحریر
محمد عثمان جامعی

شہبازگل کو آکسیجن کے لیے تڑپتا دیکھ کرمیرے سینے میں سانسیں رکنے لگیں۔ بہت سے لوگ اسے ناٹک کہہ رہے ہیں، اگر یہ ناٹک ہے تو میں دھوکا کھانے کو ترجیح دیتا ہوں، کیوں کہ یہ حقیقت ہے تو اس پر ایک مسکراہٹ بھی ظلم کا ساتھ دینے اور مظلوم کے مذاق اُڑانے کے مترادف ہوگا، جس کے مقابلے میں فریب خوردہ ہونا لاکھ درجے بہتر ہے۔ گیس ماسک کے لیے تڑپتے ملزم کا کرب مجھے تکلیف میں مبتلا کیے ہی تھا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کا ہول ناک انکشاف بھی سامنے آگیا۔ عمران خان کی پوری سیاست جھوٹ، مکر، فریب اور سازشوں پر کھڑی ہے، لیکن دل نہیں مانتا کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ بولیں گے، جو ان کے قریب ترین ساتھی اور ان کی جماعت کے ایک نہایت اہم راہ نما کی تذلیل کا سبب بھی بنے اور پی ٹی آئی کے راہ نمائوں اور کارکنوں کے حوصلے بھی توڑ ڈالے۔ پھر عمران خان پر کسے یقین ہے، یقین تو ریاست پر ہے جو کچھ بھی کرسکتی ہے، ن لیگ کے پرویزرشید سمیت کتنے ہی سیاسی راہ نمائوں کو اس درندگی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ گنگا طیارہ اغوا کیس کے کشیمری ملزم عبدالقیوم کی کتاب پڑھو تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ولی خان کا ٹریبونل کو بیان بتاتا ہے کہ نیپ کے اسیر کارکن کے پاس ایک سرکاری اہل کار آیا، اس نے اپنے ’’جسم‘‘ پر لگی آلودی اس کارکن کو دکھاتے ہوئے کہا،’’تمھاری بیوی کے ساتھ کرلیا، اب تمھاری بہن کی باری ہے۔‘‘ یہ ریاست نوروزخان بلوچ کو قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے بلاتی ہے اور پھر قرآن کو جزدان میں لپیٹ اور چوم کر رحل پر رکھنے کے بعد اس مقدس کتاب کے سائے میں ریاستی اداروں پر اعتماد کرلینے والے نوروزخان بلوچ کو پھانسی پر لٹکا دیتی ہے۔ ایم کیوایم اور پپیلزپارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ریاست کی سلوک کی کہانیاں دل چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نام پر انسانی وقارکو پیروں تلے روند ڈالنے کی حکایات نہ ہی سنیں تو بہتر ہے۔ بلوچوں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ سفاکی کی ایک الگ داستان ہے۔ یہ سب کرنے والی ریاست نے اگر شہبازگل کو نشان عبرت بنانے کے لیے اس حد چلی گئی جہاں درندے بھی نہیں جاتے، تو حیرت کیسی؟

فی الوقت ہم اس الزام کو سچ نہ مانیں تو رد بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے شہبازگل کا مذاق نہ اُڑائیے، یہ رویہ عمران خان اور ان کے پیروکاروں، بہ شمول شہباز گل، کا ہے، جو ریاستی اداروں کے آلہ کار بن کر ہر سچ بولے والے کا مذاق اڑاتے اور اسے گالیاں دیتے رہے ہیں۔ جن کی سوچ ہے کہ ہر مخالف غدار ہے، جس کے ساتھ ہرسلوک جائز ہے۔

انھیں وجوہات کی بنا پر ہم جیسے لوگ عمران خان اور ان کی جماعت کو فاشسٹ اوراقدار دشمن سمجھتے ہیں۔

اب یہ آپ پر ہے کہ شہبازگل کی مذاق اُڑاکر عمرانی اقدار اور رویوں کی پیروی کریں یا شہبازگل کے حق میں آواز اٹھا کر انسانی، اسلامی اور ہماری سماجی اقدار کا پرچم بلند کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *