.تحریر: رضوان طاہر مبین
بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں
اور اب یادیں بھی ایسی کہ جنھیں یاد کرنے کے لیے بھی کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا
ہمیں پرسوں اطلاع ملی کہ گذشتہ جمعے اورہفتے (آٹھ اور نو اپریل 2022) کی درمیانی شب ہمیں ٹیوشن پڑھانے والی عقیلہ باجی کا انتقال ہوگیا! دل بہت افسوس سے بھر گیا اور تب سے بہت ساری یادوں کا ایک سیلِ رواں ذہن کے پردے پر چل رہا ہے کتنی ہی باتیں ہیں، جو یاد آئی جاتی ہیں، وقت کے تیز رفتاری سے گزرنے سے خوف بڑھتا جاتا ہے۔ کافی دن پہلے ایک ’فیس بک‘ گروپ کے توسط سے ہمیں اُن کی علالت کی خبر ملی تھی، تو ہم اپنی بہن کے ہم راہ ان کی خیریت کو گئے تھے، اس کو بھی دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے دوبارہ بھی کئی بار خیال آیا، مگر آج کل، آج کل کرتے کرتے یہ ملنا رہ ہی گیا۔ بس ان کے شوہر سے ہی گاہے گاہے خیر خیریت پوچھ لیتے تھے۔
شاید مجموعی طور پر ہم نے سب سے زیادہ طویل وقت ٹیوشن انھی کے پاس پڑھا تھا، اب بالکل حتمی طور پر تو یاد نہیں، لیکن یہ عرصہ پرائمری اسکول کا کوئی ساڑھے تین، چار سال تو غالباً بنتا ہی ہے کالونی کی تیسری لائن میں ’زہرہ منزل‘ کے برابر میں واقع سفید رنگ کی بلڈنگ ’فائزہ ٹیرس‘ کی پہلی منزل پر ایک ہم ہی کیا، اس وقت کا پورا ایک عِہد ان کے پاس پڑھتا تھا اسکولوں میں تو اکثر بہن بھائی الگ الگ کلاسوں میں ہوتے تھے، لیکن وہاں ہر شام سارے بہن بھائی بہ یک وقت ان کے گھر میں یک جا ہو جاتے ہم بھی اپنی چھوٹی بہن زینب اور بھائی فرقان کے ساتھ وہاں پڑھنے جاتے، ہمارے خالہ زاد دانش بھی کچھ دن وہاں ساتھ رہے۔ اسی طرح اور بھی کتنے نام ہیں، جو یاد آئے جاتے ہیں، چہرے کچھ دھندلا گئے ہیں، جب کہ بہت سے چہرے یاد آ جاتے ہیں اور نام اب ذہن سے مٹ چکے ہیں۔ اتنے برسوں بعد ظاہر ہے اب یہ سارے ہی ”بچے“ بال بچے دار ہوں گے، لیکن اُس وقت یہ سبھی اسکول کے بچے ہی تھے صرف بہن بھائی ہی نہیں، بہت سے خالہ، ماموں زاد بھی پورے کے پورے کُٹم وہاں جمع ہوتے تھے، جس میں سرِفہرست سہیل، تبسم، نازیہ اور پھر ان کے چھوٹے بھائی زوہیب اور شعیب، پھر انھی کے خالہ زاد یاسر، عمیر، زبیر، عائشہ اور انیلہ، شاید عمران بھی کچھ دن وہاں پڑھا، اور ان کے ماموں زاد کشور، امبر اور فرخ وغیرہ۔ اسی طرح ’حق منزل‘ سے تین بہن بھائی سعد، ثمرین اور سحرش، ’حق منزل‘ (نمبر دو) سے تین بہن بھائی شیراز، مریم اور فراز، فائزہ ٹیرس کی برابر والی بلڈنگ سے تین بھائی ذیشان بھائی، عرفان اور احتشام، اور یہیں سے تین بہنیں امبر، عنبرین اور صبا، باجی کے برابر والے گھر سے عبیرہ اور اس کا چھوٹا چلبلا سا بھائی عثمان۔ روحی، امبر اور اس کے ایک دو چھوٹے بہن بھائی بھی وہاں آتے تھے، جو ’کاشانہ الیاس‘ میں رہتے تھے، روحی اور محسن یحییٰ (وہی محسن جو ایک سال پہلے انتقال کر گیا!) دوسری لائن میں چوہدری نقی کے خاندان کے دانیال اور اس کی بہن بھی وہاں پڑھے۔ دراز قد کامران بھائی، جنھوں نے ہاتھ اوپر کر کے چھت کے پنکھے کی ’منڈھی‘ پر مارکر پھیر دیا تھا، وہ بھی اپنی بڑی بہن کے ساتھ وہاں پڑھتے تھے، خورشید اور اس کی بہنیں اور ہماری کلاس کا جواد بھی وہاں بیٹھا اور غالباً اس کی بہنیں سدرہ اور ندا بھی۔ اللہ بخشے جواد کی امی ایک دن شکایت لائی تھیں کہ اسکول کی چھٹی میں جواد دوسرے شرارتی لڑکوں کے ساتھ مل کر بچوں کو لے جانے والی سوزوکیوں کے پیچھے لٹکتے پھرتے ہیں، انھیں منع کیجیے، تو باجی نے پھر جواد کی سرزنش کی تھی۔ ابراہیم، اسمعیل اور ان کی بہن مومنہ، تیسری لائن کی ’زہرہ منزل‘ والے تین بھائی ناصر، ذیشان اور شازلی بھی شاید وہاں پڑھے، اسی طرح مختار، عابدہ اور آصفہ باجی، انبالہ اسٹور والے بھائی گلزار کے بیٹے ریحان، رضوان اور ذیشان جو اسی بلڈنگ ہی میں رہتے تھے، ’نئی بستی‘ سے ایک لڑکا طلحہ بھی اپنی بہن کے ساتھ آتا تھا، نئی بستی ہی سے شائستہ باجی بھی آتی تھیں، بعد میں ان کا چھوٹا بھائی وسیم بھی آنے لگا تھا، اور وہیں ڈاکٹر آفتاب والی گلی سے ہمارا دوست طارق اور اس کی بہن عائشہ اور انھی کی بلڈنگ سے بہنیں کوثر، ثمرین اور فاطمہ وغیرہ، تیسری لائن ہی کے آخری حصے میں ایک چشمے والے عبید (جو دبئی وغیرہ میں ہوتے ہیں، اِن دنوں آئے ہوئے ہیں) اور ایک چھوٹا عبید بھی پڑھتے تھے، تیسری لائن میں آخری پتلی گلی سے فائزہ اور پھر اس کا بھائی فیضان، باجی کی بلڈنگ ہی میں اوپر سے رابعہ اور گراﺅنڈ فلور سے شان، چوتھی لائن سے فرحان یحییٰ (دوائی والے) دوسری لائن سے ایک چَٹا سا لڑکا ہمایوں، شہزاد میڈیکل والوں کا نواسہ فرخ، جو نئی بستی میں ڈاکٹر نقی چاندنہ کے گھر کے پاس رہتا تھا۔ ’زیرو لائن‘ سے سعدی اور اس کی بہنیں فائزہ، روحی اور ملیحہ وغیرہ، ملیحہ کا بھی سنا تھا، چار پانچ سال پہلے انتقال ہوگیا، اس کے علاوہ قمر باجی، ندا باجی، بشریٰ باجی، شنیلا، نوشین، حنا، تین بہن بھائی عمیر، صبا اور اقصیٰ بھی آتے تھے، (ایک سال پہلے اقصیٰ کا بھی اچانک انتقال ہوگیا) عادل مطب والی گلی کے فرخ اور اس کی بہن عائشہ، شاید ’عمر منزل‘ والوں کا عثمان بھی کچھ دن وہاں پڑھا۔ حبیب بینک والی گلی سے طیب (آپٹیکل والا) اور اس کی بہنیں، اسی کی بلڈنگ سے وقار اور اس کی بہن بھی وہاں آتے تھے اس کے علاوہ باجی کی نند کے بچے عبدالرزاق اور ثنا بھی کچھ دن وہاں پڑھے، جو ’الیاس مینشن‘ یا اس کے برابر والی لال بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ایک چھوٹی بچی طہوریٰ بھی بیٹھی تھی، جو باجی میں آرہا ہوں، جارہا ہوں کر کے اپنے لیے ’مذکر‘ کا صیغہ استعمال کرتی تھی، باجی ہی کی لڈنگ سے ایک چھوٹا بچہ (غالباً جدہ جیولرز والوں کابیٹا) زین حد سے زیادہ شرارتی تھا۔
تیسری لائن سے ہی آپا روشن کے بیٹے تابش اور دانش، بھائی راشد کے بیٹے سکندر اور دو اور چھوٹے بھائی، بھائی متین (لیدر گارمنٹس والے) کے بیٹے شہزاد بھائی اور دانش بھی وہاں پڑھتے تھے۔
الغرض اور بھی بہت سے ’بچے‘ ہوں گے، جو اب بہت بڑے ہوں گے، سرِ دست تو یہی نام یاد آسکے ہیں، جن سے باجی کے گھر کے دو کمرے بھر جاتے تھے، باجی دونوں کمروں کے دروازے کے درمیان بیٹھتی تھیں، تاکہ دونوں جانب نظر رکھ سکیں، شام کو پانچ بجے اسکول سے واپسی کے بعد فوراً ہی ہم کپڑے وغیرہ بدل کر چھے بجے کے قریب ٹیوشن پہنچتے اور آٹھ بجے تک وہیں ہوتے، اسکول کی کار گزاریوں، کلاس کی الجھنوں سے ’ہوم ورک‘ کی پریشانیوں کے حل یہاں ہوتے، بالخصوص کوئی ٹیسٹ وغیرہ ہو تو اس کی اچھی طرح خبر رکھی جاتی تھی، اگلے دن پھر ٹیسٹ پیپر دکھائیے کہ کیا کیا ہے، اسی طرح اگر امتحانات ہو رہے ہیں تو اس کے لیے وہ صبح بھی بلایا کرتیں، پھر رپورٹ کارڈ کی بھی پیشی ہوتی، نمبر کم ہوتے تو اچھی خاصی سرزنش ہوتی، پھر وہ ٹیوشن میں بھی ٹیسٹ لیتیں۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ’کلاس ورک‘ کی کسی ”تلخی“ کو ہم ڈانٹ سے بچنے کے لیے بستے میں چھپا رکھتے یا جان بوجھ کر وہ کاپی گھر پر رکھ کر جاتے، تو کبھی بات بن جاتی تو کبھی گھر بھیج کر کاپی منگواتیں، ایک بار ایسا ہوا کہ امی نے ہماری اسکول کی کسی کاپی پر ’گڑ بڑ‘ دیکھ لی، تو چپکے سے باجی کو کہہ دیا۔ اب باجی نے ہمیں بلایا، ذرا فلانی کاپی تو لے کر آﺅ اور جناب ’کلاس‘ ہوگئی کہ یہ کیا ہے؟ کبھی وہ بات اس طرح بناتیں کہ میں تمھارے اسکول آئی تھی، یا تمھاری مس سے ملی تھی، وہاں سے تمھاری فلانی بات پتا چلی ہے
ٹیوشن میں میتھ کے علاوہ، سائنس اور سوشل اسٹڈیز جیسے مضامین پر زیادہ زور رہتا تھا اور ظاہر ہے ہم ٹھیرے ان معاملات میں بس گزارے کے لائق طالب علم، سو بڑی جان پر بنتی تھی کہ کسی طرح ان مضامین کے ذکر کو زیادہ سے زیادہ ٹالے رکھا جائے ایک نہیں کئی بار ایسا ہوا کہ پہاڑے ’جوڑ جوڑ‘ کر لکھنے پر بڑی ہی سخت پکڑ ہوئی، پتا نہیں کیوں ٹینشن میں جمع کر کر کے لکھنے میں لازماً ایک ہندسے کی کہیں نہ کہیں غلطی ہو جاتی تھی اور پھر صاف پتا چل جاتا کہ ہر جگہ جوڑ، جوڑ کر ہی ’کاری گری‘ دکھائی گئی ہے۔ مار تو ایسی یاد نہیں پڑتی، شاید کبھی ایک آدھ اسکیل وغیرہ پڑ گیا ہو تو پڑ گیا ہو، ڈانٹ البتہ اچھی خاصی پڑ جاتی تھی شدید غصے میں اُن کا تکیہ کلام تھا، اور اکثر سعد ہی کو کہتی تھیں کہ ”سعد تھوڑے سے پاگل ہو رہے ہو!“
عقیلہ باجی کی کوئی اولاد نہیں تھی، اور پھر انھوں نے غالباً اپنے بھائی کی بیٹی کو گود لیا تھا اور ہمیں یاد ہے جس دن وہ اِسے گھر لائی تھیں، انھوں نے ہماری ٹیوشن کی چُھٹی دی تھی! باجی ہفتے کی بھی چھٹی دیتی تھیں، کیوں کہ اِس دن وہ اپنی امی کے ہاں جاتی تھیں، اور ہمیں بھی بڑی سہولت تھی کہ ہم بھی اِس دن اپنی نانی کے ہاں جاتے تھے باجی کے شوہر انکل نعیم بھی کبھی بچوں میں آکر ہنسی مذاق کرتے، تو ٹیوشن کا ماحول ذرا دیر کو بدل جاتا تھا، کبھی یہ ہنسی مذاق زیادہ ہو جاتا تو باجی انھیں ٹوک بھی دیا کرتی تھیں۔
ہماری یہاں زیادہ دوستی طارق اور ابراہیم وغیرہ سے رہی، کبھی زیادہ باتیں کرتے تو باجی الگ الگ بھی بٹھا دیتی تھیں کوئی کچھ کھارہا ہوتا تو ڈانٹ پڑتی، بالخصوص چیونگم۔ منع کرنے کے باوجود بچے بعض نہیں آتے تھے، پینسل چھیل کر کچرا قالین کے پلو کے نیچے ڈال دیتے تھے، کبھی کسی نے چیونگم بھی ڈال دی، اب کون قبولے سبھی کہتے ”باجی ہم نے نہیں کیا، باجی ہم نے نہیں کیا“ کسی لڑکے نے ”اسٹاپ“ رکھی ہوئی ہے تو اس کے آتے کے ساتھ ہی وہ ”اسٹاپ“ کر رہا ہے اور وہ وہیں ’اسٹیچو‘ بن گیا، باجی نے دیکھتیں تو برہم ہوتیں یہ کیا ہو رہا ہے۔ کسی نے ’سلام اسٹاپ‘ رکھی ہوئی ہے، دیکھتے کے ساتھ ہی ”سلام اسٹاپ“ اور پھر مذکورہ لڑکے کو تب تک سلام کے لیے ہاتھ اٹھائے رکھنا ہوتا، تب تک اُسے مخاطب کی طرف سے یہ گُلوخلاصی نہ مل جائے کہ ’کل تلک کی!‘
ٹیوشن میں لائٹ جانا بھی ہم بچوں کے لیے ایک ’شغل‘ سا ہوتا تھا، ظاہر ہے جنریٹر وغیرہ یا ایسا کوئی بندوبست تو تھا نہیں، ہلکی پھلکی ایمرجینسی لائٹ یا موم بتی سے کام چلاتے تھے، اور پھر ٹیوشن سے جلدی چھٹی ہونے کا آسرا ہو جاتا تھا۔ اب یہاں لائٹ جاتے کے ساتھ ہی نہ جانے ہم جیسے ’شریف‘ آدمی کو بھی کیا ’شیطانی‘ سوجھی تھی کہ جیسے ہی لائٹ جاتی اور گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو جاتا، ویسے ہی ہم کیا کرتے کہ ایک ہاتھ مار کر بچوں کے پینے کے پانی کا جو جگ رکھا ہوا ہوتا تھا، لڑھکا دیا کرتے تھے۔ اب اندھیرے میں کیوں کر پتا چلے کہ یہ کارنامہ کیسے ہوا ذرا روشنی ہوئی تو ”ہووو!“ کر کے دیکھا، تو سارا کا سارا بچھونا گیلا! اب کیا چُھپائیں کہ ایک نہیں، کئی بار یہ حرکت کی اور کبھی پکڑ نہ ہوئی، یہ ہماری ایک بہت عجیب سی شرارت تھی، جو کر کے دماغ میں عجیب تفریح محسوس ہوتی تھی، اور بعد میں ظاہر ہے سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے! اب ہمیں یاد نہیں 2020ءکے اوائل میں آخری ملاقات میں باجی سے اس کا ذکر کر کے معذرت بھی کر پائے تھے یا نہیں
باجی کے ٹیوشن کا کوئی باقاعدہ وقت طے نہیں تھا، غالباً چار، ساڑھے چار بجے سے بچے آتے تھے اور نو بجے کے بعد تک بھی بعضے بچے بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کے ٹیوشن کا عام طور پر دو گھنٹے کا ایک ’اسٹینڈرڈ ٹائم‘ تھا، اسی ’معیاری وقت‘ کو پورا کرتے ہوئے بچے آتے اور جاتے رہتے تھے۔ سب سے پہلے ’ہرے امینیہ‘ والے بچے آتے تھے، کیوں کہ ان کی چھٹی شام چار بجے ہی ہو جاتی تھی، یا پھر صبح کی شفٹ والے بچے شاید چار، وار بجے پہنچ جاتے تھے۔ ہم لوگوں کا اسکول پانچ بجے ختم ہوتا تھا، اس لیے ہمیں چھے ہی بج جاتے تھے، البتہ دو مہینے کی چھٹیوں میں ہم سہ پہر تین بجے بھی پہنچ جاتے تھے، جس پر کبھی باجی کہتی تھیں کہ نہیں چار بجے تک آیا کرو۔ ہمیں یہ لالچ ہوتا تھا کہ جلدی سے ٹیوشن نمٹا کر آجائیں اور پانچ بجے ہمیں پوری شام کھیلنے کو مل جائے۔ رمضان میں روزے سے پہلے ٹیوشن پڑھنے جاتے اور ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہی گھر لوٹ آتے۔ بچوں کی چھٹی کرنے کے لیے باجی نام پکار کر کہتیں، جیسے ”رضوان، فرقان بیگ پیک کریں!“ بس اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہماری چھٹی ہوگئی! یا کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ہم بیٹھے بیٹھے اکتا گئے اور باجی کہہ ہی نہیں رہیں، کہہ ہی نہیں رہیں۔ یا کبھی کوئی پندرہ، بیس منٹ پہلے نکلنے کا من ہے، تو کیا کرتے، جا کر چھٹی مانگ بھی لیتے۔ یہ بھی ایک ’پل صراط‘ کا مرحلہ ہوتا تھا، یعنی وہ چھٹی دے دیں گی، یا پھر یہ بھی کہہ سکتی ہیں، ابھی نہیں، ذرا فلاں کاپی نکال کر لاﺅ! یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے موقع پر بڑے تذبذب کا شکار ہوتے اور دونوں بہن بھائی ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے تھے کہ ’تم پوچھو، نہیں تم پوچھو!‘
عام ٹیوشنوں کی طرح ’میتھمٹیکس‘ وغیرہ پر زیادہ زور ہوتا، اکثر بچے یہی ’سمز‘ ہی حل کرنے میں لگے ہوتے تھے، لیکن چھوٹے بچوں کو بھی کچھ یاد کرانا ہو تو انھیں باآواز بلند پڑھانا آج بھی کانوں میں گونجتا ہے، کلمے ہوں، ایمانِ مفصل ہو یا ایمانِ مجمّل یا پھر پہاڑے، وہ اونچی آواز میں پڑھ کر سناتیں اور کہتیں، دیکھو کتنا آسان ہے، مجھے تو یاد ہوگیا! یہی نہیں آپ کو کوئی بھی چیز پوچھنی ہے، آپ نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے آواز لگا کر پوچھ لیا، جنرل نالج سے لے کر سائنس اور سوشل اسٹیڈیز وغیرہ، کوئی ڈائیاگرام، کوئی نقشہ بنانا ہے، باجی یوں ہی دو منٹ میں بنا دیں گی کسی لفظ کا جملہ بنانا نہیں آرہا، اِدھر پوچھا اُدھر جواب حاضر ایک بار ہمارے اسکول میں کسی مضمون لکھنے کا مرحلہ تھا، انھوں نے ہمیں لکھوایا اور ہمیں یاد ہے وہیں پہلی بار ’دن دگنی اور رات چوگنی ترقی‘ کا فقرہ پہلی بار سنا تھا اور اتنا انوکھا اور نیا لگا تھا کہ ذہن سے چپک کر رہ گیا اور پھر جب بھی کسی تقریر میں یہ جملہ سنا، ہمیں یاد آیا کہ یہ باجی نے ہمیں بتایا تھا۔
یوں بھی زندگی میں والدین اور استاد ایسی ہستی ہوتے ہیں کہ جن کا حق کبھی اتارا نہیں جا سکتا، ہمیں والدین کا تو سبھی کہتے ہیں، لیکن اپنے اساتذہ کی جانب سے اکثر ہم انتے لاتعلق ہوتے ہیں کہ کوئی رابطہ بھی نہیں رکھتے اور ان کی خبر گیری کی ضرورت تک بھی محسوس نہیں کرتے۔ اب وہ چاہے مدرسے، اسکول، کالج اور یونیورسٹی وغیرہ کے استاد ہوں یا پھر ٹیوشن اور کوچنگ وغیرہ کے۔ ہمیں انھیں یاد رکھنا چاہیے، اب، دیکھیے، کیسے ہماری بے خبری میں ہی عقیلہ باجی دنیا سے چلی گئیں ہم فقط اب کفِ افسوس ہی مل سکتے ہیں اور انھیں یاد کر سکتے ہیں، ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے شاگردوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، آمین!
samywar.com
Categories