-تحریر-مالک اشتر
بچپن کی عید کا دن بھی عجیب تھا کہ وہ جتنی جلدی شروع ہوتا اتنی ہی تیزی سے تمام بھی ہو رہتا۔ چاند رات سے شروع ہوئیں تہوار کی تیاریاں تھیں کہ نمٹنے کا نام نہ لیا کرتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عید کی نماز کے لئے بھاگم بھاگ پہنچنا پڑتا تاکہ دو رکعتیں چھوٹ نہ جائیں۔ میرے خیال میں عید کو اگر آپ اس کے جوبن پر دیکھنا چاہتے ہیں تو دو چیزیں ضروری ہیں۔ اول یہ کہ وہ عید بچپن کی ہو اور دوسرے یہ کہ وہ گاؤں کی عید ہو۔ دیہات کی سماجی زندگی میں اپنے محدود وسائل کے باوجود عید کی جو رونق ہوتی ہے اسے شہر کی لدی پھندی عیدیں شائد کبھی نہ لگ سکیں۔
عید سے دو تین روز پہلے سل کر آئے نئے کپڑے جب تک دو چار دفعہ کھول کر نہ دیکھ لئے جائیں تب تک ان کا حق ادا نہیں ہوتا تھا۔ ننہیال ددھیال کے ہم عمر ہمارے یہاں آکر کپڑے دیکھتے اور ہم ان کے یہاں جاکر ان کے عید کے جوڑے دیکھ آتے۔ کپڑے دکھانے کے بعد انہیں بڑی احتیاط سے واپس تہہ کرکے ایسے سنگوایا جاتا جیسے یہ نئے کپڑے ہی مجسم عید ہوں۔
عید کے تڑکے سے ہی پورے گھر یا یوں کہئے پوری بستی میں چہل پہل مچی رہا کرتی تھی۔ جاڑوں کا موسم ہوا تو چولہے پر بڑے سے پتیلے میں سارے گھر کے نہانے کی خاطر پانی کھول رہا ہوتا البتہ گرمی کی عید میں اس اہتمام کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ باہر محلے کے سرکاری نل کے مسلسل چلنے کی آواز بتا دیا کرتی تھی کہ جن کے گھر کے غسل خانے میں لمبی ویٹنگ ہے وہ یہاں نہا رہے ہیں۔
دیہات کی زندگی میں وسائل جس قدر کم ہوا کرتے تھے سلیقہ اتنا ہی زیادہ تھا۔ مٹی کے گھروں میں لوگ عید آنے سے پہلے خود ہی چونا پھیر لیا کرتے تھے۔ گھروں کی کچی زمین کی سجاوٹ کرنے کے لئے مائیں مٹی اور بھوسا ملاکر اس کی ‘گوبری’ پھیرا کرتی تھیں۔ دالان اور صحن میں مہمانوں کے لئے تخت اور پلنگ ڈالے جاتے اور ان پر چادریں بچھا دی جاتی تھیں۔
ادھر گھر کے مرد عید کی نماز کے لئے روانہ ہوئے ادھر سوئیاں، پلاؤ، چھولے اور چھاج پھلکی جلدی جلدی تیار کر لی جاتیں تاکہ عید گاہ اور مساجد سے نکل کر لوگ جب ایک دوسرے کے یہاں جائیں تو ان کی ضیافت ہو سکے۔ میری بستی میں رواج تھا کہ لوگ نماز سے نمٹ کر پہلے ان گھروں میں جایا کرتے تھے جہاں حال ہی میں کسی کا انتقال ہوا ہو۔ ایسے گھروں کے باہر چارپائیاں پڑی رہا کرتی تھیں جن پر لوگ آکر تھوڑی دیر بیٹھتے اور مرنے والے کے لئے فاتحہ پڑھتے۔ یہ دراصل ان سوگوار گھروں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوا کرتا تھا۔ گویا بستی والے یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ اگر کسی گھر میں کوئی دنیا سے اٹھ گیا ہے تو اس کے گھر والے خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ اب سنا ہے کہ یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
گھر کی خواتین کی پوری عید تہوار کی تیاری اور اہتمام کی نذر ہو جایا کرتی تھی۔ ابھی مہمانوں کی آمد شروع بھی نہیں ہونے پاتی تھی کہ ماموؤں کے یہاں سے امی کا تہوار آتا۔ میری والدہ تہوار وصول کرتے ہوئے وہ چھوٹی بچی لگا کرتی تھیں جسے عیدی دی جا رہی ہو۔
عیدی سے یاد آیا کہ ہمیں پہلی عیدی بابا سے ملتی اور پھر دیگر رشتہ داروں سے وصولی ہوا کرتی تھی۔ وہ بڑے غضب کے دن تھے کہ پانچ دس روپئے خرچ کرنے میں ہمیں پسینے آ جاتے۔ یوں بھی آٹھ آنے کا ہنڈولہ، آٹھ آنے کی آلو کی چاٹ، ایک روپئے کی کرائے کی سائیکل کے بعد کون سے عیش کی گنجائش بچ رہتی ہے، جہاں انسان اپنی دولت لٹائے؟۔
کئی سال تک معمول رہا کہ عید کے دن کرائے کی سائیکل لے کر آس پاس کے دیہات میں رہنے والے اپنے دوست کے گھر جایا جائے، بعد میں اپنی سائیکل آ گئی تو دیر ہونے پر اضافی کرایہ لگنے کا خوف بھی جاتا رہا۔
عید کی خوشیوں کا ایک ایک پل جی لینے میں اگر بچے آگے ہیں تو تہوار کا کماحقہ اہتمام کرنے میں بچیوں کو کوئی نہیں لگ سکتا۔ نئے کپڑوں کے ساتھ ساتھ، چھوٹا سا ہینڈ بیگ، سر میں لگانے کا تتلی جیسا ہیئر بینڈ، نئی جوتیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ چاند رات کو امی سے بڑھ بڑھ کر مہندی لگوانا اور صبح تک اس احتیاط میں ہاتھ کو سیدھا کئے جاگتے رہنا کہ کہیں سوتے ہوئے مہندی بگڑ نہ جائے۔ صبح ایک دوسرے پر یہ سبقت لے جانے کی کوشش ہوتی کہ کس کی مہندی زیادہ رچی ہے؟۔ بہنوں کی یہ خوشیاں عید کو اور روشن کر دیا کرتی تھیں۔ کپڑوں کا ہم رنگ معمولی سا کپڑے پلاسٹک کا تاج پہن کر وہ خود پر ایسے غرور کرتیں کہ سونے چاندی کے تاج کو رشک ہونے لگے۔
میری عید کی صورت اس وقت بدلی جب میں گاؤں چھوڑ کر دلی آ پڑا اور جامعہ میں نام لکھوا لیا۔ اب ہوا یوں کہ عید سے ہفتہ بھر پہلے سے گاؤں جانے والی بس میں وہ قیامت کا رش ہوا کرتا تھا کہ میں کبھی عید پر گاؤں جانے کی ہمت ہی نہیں جٹا سکا۔ یہی وجہ رہی کہ میری عید جامعہ کے تقریبا سنسان کیمپس میں کٹا کرتی تھی۔ اس موقع پر میرے ساتھ میرا دوست علم اللہ بھی میری جیسی کیفیت میں مبتلا رہا کرتا، اس لئے ہم دونوں اکثر ساتھ یہ دن گزارتے۔ اس کیفیت کو میں نے علم اللہ کے نام ایک خط میں درج کیا تھا، سو اس اقتباس کو یہاں درج کرکے عید کی یادوں کی گٹھڑی کو سمیٹتا ہوں:
“عید پر جامعہ کیمپس میں ہو کا عالم ہوتا۔ دہلی میں ہم دونوں کے بے تکلف دوستوں میں سے زیادہ تر اپنے وطن سدھار جاتے اور ہم جو اکثر دہلی میں ہی رُک جاتے تھے، عید کا پہاڑ جیسا دن کاٹنے میں لگ جاتے۔ تمہارا گھر دہلی سے ہزار کلو میٹر زیادہ فاصلے پر تھا اس لئے سفر آسان نہ تھا، میرا گھر دہلی سے زیادہ دور تو نہیں تھا لیکن میں سفر کا چور تھا اور عید کے موسم کی بھیڑ سے چھلکتی بس میں پانچ گھنٹے بیٹھنا میرے لئے مشکل تھا۔ سچ پوچھو تو وہ دن بڑا بھاری گزرتا۔ نماز کے بعد کیا کریں؟ کوئی دوست نہیں جس کے گھر جائیں، لائبریری تو کیا ریڈنگ روم تک بند ہے جہاں وقت گذار لیں، حتیٰ کہ سائبر کیفے مالک تک اس دن عید کی وجہہ سے دکان بند رکھتا جہاں ہم پندرہ روپیہ گھنٹہ ٹائم کاٹ سکتے تھے۔ ویران کیمپس کے کسی حصے میں پڑی پتھر کی گول میز پر پھر سے وہی دو لڑکے بیٹھے ہیں اور اپنے اپنے گھر کی عید کا ذکر چل رہا ہے۔ بچپن کی یادیں، امی بابا کی چاہت، بھائی بہنوں کی شرارتیں اور نہ جانے کیا کیا۔ اسی دوران دونوں کے گھروں سے فون آتا، جس کی گفتگو کا مضمون عموما ایک جیسا ہوتا۔ بابا اور بھائی عید کی مبارکباد دیتے اور امی اور بہنوں کا اداس شکوہ ہوتا کہ ‘عید تھی تو آیا کیوں نہیں’؟۔۔۔۔”