Categories
رضوان طاہر مبین قومی تاریخ کراچی

کراچی: اپنے نگر میں اجنبی ہونا!

تحریر : رضوان طاہر مبین


”قیامت صغریٰ کی تباہ کاریاں اپنی جگہ ہیں، لیکن ہمارا المیہ تو اس سے بھی زیادہ پرانا اور بڑا ہے!“
اس نے بہت واضح انداز میں کہا۔
پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا کہ ”ہمیں بلاتفریق ہر ایک کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے، وہ ہم کر بھی رہے ہیں، لیکن آپ بتائیے کہ 2005ءکے زلزلے کے متاثرین تو جیسے تیسے بحال ہوگئے، لیکن ان کی ایک بہت بڑی تعداد تو کراچی ہی میں مستقل ٹھیر گئی، پھر اس کا کیا ہوا؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ان زلزلہ متاثرین کو کراچی میں نفرتوں کی سیاست کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنرل ایوب خان کی دور دراز سے دوسری قومیتوں کو کراچی لا کر مسائل پیدا کرنے کی ’بدعت‘ ایسی بدقسمتی ہے کہ کبھی نہیں رک سکی، جو انھوں نے تربیلا ڈیم کے متاثرین کو یہاں لا کر شروع کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ دارالحکومت تو یہاں سے اٹھا کر لے گئے، لیکن ریاست میں دیگر علاقوں میں مساوی روزگار کے مواقع ان کے بعد کوئی بھی پیدا نہ کر سکا، پھر کوئی بھی آفت ہوتی، سبھی کا رخ کراچی ہوتا۔“
ہم نے اس سے کہا کہ ”دستور پاکستان سبھی کو کسی بھی جگہ جا کر آباد ہونے اور روزگار کے مواقع حاصل کرنے کا حق دیتا ہے“
”وہی دستور ملک کی ساری لسانی اکائیوں کو بھی حق دیتا ہے کہ انھیں کہیں بھی اقلیت میں نہ بدلا جائے، ان کی ثقافت اور تہذیب کو بھی مکمل تحفظ دیا جائے۔“ اس نے تیزی سے ہماری بات درمیان ہی میں کاٹ کر کہا، پھر گویا ہوا:
”یہی نہیں، یہاں تو بلدیات سے لے صوبائی اور وفاقی حلقوں تک میں بدترین جانب داری برتی گئی ہے اور جان بوجھ کر مہاجر آبادی میں کم اور دیگر لسانی اکائیوں کے لیے زیادہ حلقے بنائے گئے ہیں، لیکن فی الحال اسے چھوڑیے، یہ تو بعد کی بات ہے، آج کے تازہ مسئلے تک رہیے کہ ہمیں کیوں ہمارے ہی شہر میں اقلیت میں بدلا جا رہا ہے؟“ وہ بغیر رکے بے تکان بولتا ہی چلا گیا۔
”آپ بھی نہیں لکھ سکتے، کہ لکھیں گے تو سارے لوگ آپ کو ’تنگ نظر‘ اور ’متعصب‘ کہیں گے!“ اس نے معنی خیز سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک گرہ لگائی۔
ہم نے کہا کہ ”دیکھیے، انسان پر سب سے زیادہ حق اس کے شہر اور اس کے اپنے نگر کا ہوتا ہے، ہم نے ہمیشہ اس دکھ کو محسوس کیا اور یہ حق ادا بھی کیا ہے، ہماری تحریریں گواہ ہیں، آپ اگر مزید اپنی کوئی بات کہنا چاہتے ہیں، تو ہم اسے ’خانہ پری‘ میں حتی الامکان جگہ دیں گے، لیکن کسی بھی دوسری قومیت سے نفرت اور غیر مناسب کلمات بالکل بھی نہیں ہونے چاہئیں، کیوں کہ جب ہم خود اپنے لیے کسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں، تو ہمارے لیے بالکل لائق نہیں ہے کہ ہم خود اس کے مرتکب ہو کے دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنیں!“
ہماری دو ٹوک تلقین کا اس پر کافی اثر ہوا اور وہ گردن جھٹک کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے کے بعد کہنے لگا:
”آپ خود دیکھ لیجیے ناں، زلزلے کے متاثرین کی طرح 2010ءمیں سندھ سے جب متاثرین یہاں آئے، تو پھر کس قسم کی شکایات پیدا ہوئیں، ہم کسی کی تضحیک کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی مصیبت زدہ کو تکلیف دینا چاہتے ہیں، لیکن یہاں کوئی تو ہو جو ہماری مصیبتوں کے لیے بھی اپنے قلم کو کشادہ کرے، اپنی خبروں، اخباری کالموں میں جگہ دے، ہمارے الگ قومی وجود کو تسلیم کرے، ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بہ جائے مرہم رکھے!“
”75 سال میں یہاں ہماری تیسری اور چوتھی نسل جوان ہو چکی ہے، لیکن آج بھی ہمیں ’ہندوستان لوٹ جاﺅ!‘ کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ اس ملک میں ہمارے واسطے کوئی ایک کونہ تو ہمارا تسلیم کرلو! بھلے ہمارے لیے الگ صوبہ نہ دو، لیکن ہمارا علاحدہ تشخص تو مانو، ہمارے مطالبے تو سنو، ہمیں آج تک کیوں راندہ ¿ درگاہ کیا ہوا ہے۔ ہمارے بڑوں نے اس ملک کے لیے پاکستان میں شامل ہونے والے سارے صوبوں سے زیادہ 56 فی صد ووٹ دیے تھے، آج بھی ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے صوبے سے نکل جاﺅ!“
”کیوں؟
صرف اس لیے کہ ہماری اتنی سی خواہش ہے کہ ہمارا جداگانہ قومی تشخص تسلیم کیا جائے۔ محمود الحق عثمانی اور دیگر اکابرین نے 50 سال پہلے باقاعدہ یہ اعلان کیا تھا کہ ”مہاجر اس ملک کی پانچویں قومیت ہیں!“ تو کیوں تسلیم نہیں کرتے، اب تک؟ کیوں لفظ ’مہاجر‘ کے لغوی معنوں میں بات الجھا کر مذاق بناتے ہو؟ جب تسلیم ہی نہیں کرتے، تو پھر ہماری یہ پکار کون سنے گا کہ ہمیں ہمارے کراچی میںباقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اقلیت میں بنایا جا رہا ہے۔ بتاﺅ، کیا یہ انسانی حقوق کی پاس داری ہے؟ کسی بھی نسلی اور لسانی گروہ کو مسلسل ریاستی جبر کے ذریعے ایسے دیوار سے لگانے کو کون سا آئین کہتا ہے؟ دستور کی کون سی شق یہ کہتی ہے کہ اس ملک کے بانیان کی اولادوں کی آواز کو کسی بھی صحیح غلط سیاسی جواز کے تحت دبا دو؟
آج پھر ریاست پر مصیبت ٹوٹی ہوئی ہے، لیکن ہم پر تو ایک عرصے سے جبر اور مصیبتوں کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوا، اللہ نے چاہا تو یہ سیلاب متاثرین بھی کچھ عرصے میں پھر آباد ہو جائیںگے، ان کے اپنے اپنے چار صوبے موجود ہیں، لیکن ہم ایسے ’بے گھر‘ ہیں کہ ہمارے پاس صوبہ تو درکنار کوئی شہر اور کوئی ضلع بھی باقی نہیں رہنے دیا جا رہا۔
آج پھر سیلاب کے متاثرین کراچی لائے جا رہے ہیں، جو کسی بھی انتطامی ضابطے اور طور طریقے کے بغیر کراچی کے تین کروڑ سے زائد کے ہجوم میں شامل ہو جائیں گے اور پھر اس شہر کے پانی، بجلی، صفائی جیسے بدتر بلدیاتی سہولتوں کو بدترین کرنے کا باعث بنیں گے۔ اب آپ کہیں گے میں مصیبت کی گھڑی میں، میں نفرت کا آلاﺅ دھکا رہا ہوں۔ کیا میرے گھر، میرے شہر میں مجھے اجنبی بنادینا کوئی کم مصیبت ہے؟ میرے شہر کی طرف مسلسل نقل مکانی اور آباد کاری کے ذریعے میری اکثریت کو مسلسل اقلیت میں بدلے جانا چھوٹا مسئلہ ہے؟ کیا ملک کی چوتھی بڑی لسانی اکائی میں عدم اطمینان پیدا کردینا مبنی بر انصاف عمل ہے؟ میری یہ بات قطعی تعصب کی نہیں ہے، اگر ہمارے اندر تعصب ہوتا، تو پچھلے 75 سال میں کبھی مصیبت کی گھڑی میں ہمیں یہ دھیان نہیں رہا کہ کون کسی فوجی آپریشن، کون زلزلے اور کون سیلاب کے باعث یہاں آرہا ہے اور پھر یہیں کا ہو رہا ہے۔آج بھی ہمارے کارخانے اور فیکٹریاں گواہ ہیں کہ یہاں ساری قوموں کے لیے روزگار ہے، لیکن کبھی تم بھی غور کر لینا یہاں کس کی دکانوں اور ہوٹلوں پر صرف اپنے گاﺅں کے افراد ملازم رکھے جاتے ہیں، مگر پھر بھی ہمیں پر یہ الزام ہے کہ ہم متعصب ہیں؟
آج جب کراچی میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سے صورت حال اتنی بدتر ہو چکی ہے، تو مجبوراً ہمیں مصیبت کے موقع پر بھی یہ مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے کہ کراچی والوں کو کراچی میں تورہنے دو۔ اس ملک میں ہم سب بھائی بھائی ہیں، لیکن یاد رکھیے، گھر میں محبت بھائیوں کے درمیان مساوات کے بغیر قائم نہیں ہوتی! اس لیے گزارش ہے کہ اس بار سیلاب زدگان کو کراچی لانے کے بہ جائے صوبے اور ملک کے دیگر اضلاع اور علاقوں کے محفوظ مقامات پر ٹھیرایا اور آباد کرایا جائے۔ کراچی کا تباہ حال اور ناکافی انفرااسٹریکچر بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہاں مزید نقل مکانی کی جائے۔“
”بس یہی ایک التماس ہے کہ میرا نام دیے بغیر، یہ ساری باتیں ارباب اقتدار تک پہنچا دو، یہی تمھارے قلم کا اور تمھاری صحافت کا حق ہے، کہ جسے کوئی نہیں سن رہا، اسے تم سن لو، اگر سن سکتے ہو!“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *