تحریر: اختر شہاب
پتا نہیں کس احمق نے ایوب خان کے دماغ میں دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد لے جانے کا خیال ڈال دیا۔ اس احمقانہ اور خود غرضانہ منصوبے کی وجہ سے نہ صرف مہاجروں کو بلکہ پورے پاکستان کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اگرچہ سیاسی ابتری ہونے کے بعد بھی پاکستان نے ان 20 سالوں میں جتنی ترقی کی اگلے بیس سالوں اس کا اس کا عشرعشیر بھی نہ ہوا۔ اگر دارالحکومت کو اسلام آباد نہ لے جایا جاتا تو آج پاکستان کے حالات کچھ اور ہی ہوتے۔
دارالحکومت کوکراچی سے اسلام آباد لے جانے کی ایک بہت بڑے وجہ کرپشن مافیا تھی۔ مہاجر بیوروکریسی چونکہ ابھی تک محب وطن تھی لہٰذا فوج کے ناجائز احکامات ماننے میں اسے تساہل تھا۔ اس کے علاوہ دارالحکومت کراچی میں ہونے کی وجہ سے عوام کی پہنچ بیوروکریسی اور بڑے لوگوں تک تھی جس کی وجہ سے احتساب کے خوف سے بھی کرپشن کرنا مشکل تھا۔
1960کی دہائی کے بیش تر حصے میں پاکستان میں معاشی نمو نمایاں رہی اور 18 جنوری 1965ءکو ’نیویارک ٹائمز‘ نے لکھا کہ ’پاکستان ایسے معاشی سنگ میل کی طرف جا رہا ہے، جس تک ابھی تک صرف ایک دوسرا ملک ریاست ہائے متحدہ امریکا پہنچا ہے۔ اس بات کے ایک سال بعد ’ٹائمز آف لندن‘ نے کر اس بات کی توثیق یوں کی تھی کہ ’پاکستان کی بقا اور ترقی جنگ کے بعد کے دور میں ریاست اور ملک سازی کی نمایاں ترین مثال ہے۔‘
1965ء کی جنگ کے بعد چوں کہ ایک دفعہ پھر پاکستان بننے کے وقت کا جذبہ عود کر آیا تھا اور ایوب خان کا اقتدار پہلے سے مضبوط ہو گیا تھا، لہٰذا اب مہاجروں میں اسلام آباد دارالحکومت شفٹ ہونے کی مزاحمت باقی نہ رہی، بلکہ نوکری بچانے کو انھیں بھی دارالحکومت منتقل ہونا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک بہت بڑی آبادی مہاجروں کی ہے۔ گو کہ اس کے بعد بھی مہاجر بیوروکریسی عتاب کا شکار رہی اور 1969ءمیں صدر ایوب خان کی رخصتی اور صدر جنرل یحیٰ خان کی آمد کے وقت 303 سی ایس پی اور سینئر افسران کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا، جو تقریباً سب مہاجر تھے۔ اس کے بعد ا گرگست 1973ءمیں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر بیوروکریسی میں اصلاحات کرتے ہوئے 300 افسران کو فارغ کردیا ان میں بھی ایک بڑی تعداد مہاجروں کی تھی۔
خیال رہے کہ مہاجروں نے کراچی میں آباد ہو کرکوئی احسان نہیں کیا کیوں کہ کراچی کے علاوہ اگر کسی دوسرے شہر کو دارالحکومت قرار دیا جاتا، تو قدرتی طور پر مہاجروں کو وہیں جانا تھا۔ ان کی حب الوطنی اور روزگار کے مواقع انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی۔
اور اسی طرح سندھیوں نے کراچی کو آباد کرنے میں مہاجروں کو جگہ دے کر کوئی احسان نہیں کیا تھا، کیوں کہ سندھ کا تقریبا 70 فی صد حصہ ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی متروکہ جائیداد کے کلیم میں مہاجروں کے حصے میں آنا تھا جس کا بہت بڑا حصہ ابھی تک
سندھی وڈیروں کے قبضے میں ہے اور جو مہاجروں کو ابھی تک نہیں ملا۔
اپنے مضامین بھیجنے کے لیے ای میل
samywar.com@gmail.com