Categories
سعد احمد سندھ قومی سیاست کراچی

ہارون الرشید نے نائن زیرو میں کیا دیکھا؟

تحریر: سعد احمد

ریاستی جبر کے محسوس اور غیر محسوس طریقے، ان دیکھے خوف، زباں بندی کی مار اور وغیرہ وغیرہ صورت حال میں گذشتہ شب ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے تاریخی مرکز “نائن زیرو” میں پراسرار آتش زدگی ہوئی، شرم ناک بات یہ کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے جو “قائد” کے نام پر منہ سے آگ نکالتے تھے آج چپ سادھ کر پڑے اپنی اپنی کم ظرفی کا ثبوت دے رہے ہیں، وہیں اس قوم اور شہر والوں کی بدنصیبی ہے کہ اسے “کلکس” کے گھنگرو باندھ کر رقص کرنے والے بدبخت ہی ملے ہیں یا پھر “این جی او” مارکہ نقد اگلتا سچ ہے جو آپ کی اسکرین پر دکھائی دے رہا ہے، اگر نہیں ہے تو متوازن تجزیہ اور کسی حقیقت پر پڑے پردے کو ۤآشکار کرنے کی آواز، خیر المختصر 2013 میں سینئر کالم نگار ہارون الرشید نے “نائن زیرو” کا احوال اپنے کالم میں لکھا تھا، یہ فقط سیکھنے سکھانے والے طلبہ اور محققانہ ذہن رکھنے والوں کے لیے ہے، اگر سوچ وفکر میں کشادگی نہیں ہے تو پھر پرے ہی رہیے گا،

اب دیکھیے کراچی کے اکثر دانش ور اس وقت کیا لکھ رہے ہیں، گنتی کے چند لکھنے اور بولنے والے ہیں جو کم سے کم ایک واقعے کا حق ادا کر رہے ہیں، آپ کے لاکھ اختلاف یا شدید ناپسندیدگی ہوسکتی ہے، لیکن ایک واقعے اور تاریخی جگہ کے واقعے سے آپ کیسے انکھیں بند کرسکتے ہیں۔ یہ کراچی کے اور بدقسمتی سے مہاجر قوم کے دانش ور خود بتا رہے ہیں۔

کسی کو مہاجر تشخص پر مروڑ، کسی کو کسی راہ نما سے تکلیف ہے جب کہ بے ضمیر قلم کار صرف شہرت کے پیچھے دیوانے ہیں، وہ کوٹھے پر ناچتی کسی طوائف سے کم نہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر۔۔۔۔

شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا مرکز خاکستر ہوگیا، وہ بھی پراسرار انداز مٰں، لیکن وہ منہ میں گھنگیاں ڈال کر بیٹھے ہیں، فلموں پر لکھ رہے ہیں، اپنی ملکہ برطانیہ کے غم میں ہلکان ہیں، لیکن اس شہر اس قوم کے لیے آواز اٹھانا انھیں گوارا نہیں!

کیوں؟

اس لیے کہ پنجاب کے رہنے والوں کے منہ بنیں گے ، اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے کلکس اور لائکس کھونا نہیں چاہتے، اس لیے اپنا ضمیر اپنی قوم کو ملیا میٹ کرنا انھیں گوارا ہے، بہرحال اصل مقصد ہارون الرشید کا کالم تھا، اب آپ یہی پڑھیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *