تحریر: نجم السَّحر
یہ چھوٹی چھوٹی ہجرتیں بھی بڑا نقصان کرتی ہیں۔ اب دیکھیے ناں بیس سال پہلے کی، پرانے شہر سے نئے شہر کی طرف ایک چھوٹی سی نقل مکانی نے کیا غضب کیا ہم اپنی لاکھوں کی چاند رات کہیں پیچھے ہی چھوڑ آئے۔ عید کارڈ کے اسٹال فٹ پاتھ کی رونق آرٹیفیشل جیولری کی چمک رنگ برنگے پرس اور ان سب کے اسٹالز پر ہونے والے چھوٹے چھوٹے جھگڑے۔
تب مہندی کا جنون ہوا کرتا تھا چوڑیوں کا بھی اور آرٹیفیشل جیولری کا بھی اور عید کارڈز کا بھی ۔۔۔ اس وقت شاید ہر کام کا جنون تھا سوائے پڑھائی کے۔
دادی کے چھوٹے سے گھر میں ہم سب کی ڈیوٹیاں لگ جاتی تھیں تاکہ ہم سارے بچے شرارت نہ کریں اور گھر سے باہر نہ بھاگ جائیں کہ ان اسٹالوں کے اوپر اپنے پیسے برباد کریں۔
ثابت ناریل کدوکش کرنے کی ڈیوٹی، کشمش سے اس کے تنکے الگ کرنے کی ڈیوٹی، اور ہاون دستے میں کچھ کوٹنے کی ڈیوٹی۔ یہ وہ ڈیوٹی جس کے اوپر سارے کزنز کی جنگ رہتی تھی ۔۔۔ لوہے کا بڑا ہاون دستہ کزنز کو اپنی پاور دکھانے اور دوسرے کو پسڈی ثابت کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس ہاون دستہ کی آواز ایک خوب صورت گھنٹی جیسی لگتی تھی۔
اب ویسا ہاون دستہ نہیں دکھتا ۔۔۔ ویسا کچھ بھی تو نہیں دکھتا جو دادی کے گھر میں تھا۔ راستے بھی کتنے بدل گئے ہیں۔ چورنگیاں اٹھا کر جگہ جگہ فلائی اوور رکھ دیے گئے ہیں۔
کبھی اتفاق سے ان علاقوں میں سفر کرنا ہو تو وہ راستے وہ گلیاں پہچان میں نہیں آتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بچپن کہیں گزارا ہی نہیں۔ کہتے ہیں چور intangible assets نہیں چرا سکتا اور یہاں ہمارے بچپن سے جڑی ہر یاد کو چرا لیا گیا۔
عجب بے بسی ہے۔ اپنی بچپن کی چاند رات ڈھونڈنے نکلے تھے اور پتہ چلا دادی کا گھر بھی چوری ہو چکا ہے۔ وہاں پہ کچھ آسیب تھے معلوم نہیں ان کا کیا ہوا ۔۔۔۔؟؟