تحریر محمد عثمان جامعی
راستوں کو ملاتی جوہر چورنگی کچھ دنوں بعد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔
جلد یہاں سروں پر سے گزرتا پُل ہوگا اور زیرزمین راہ گزر۔ چند ماہ قبل منظور ہونے والا یہ منصوبہ اپنی شروعات کرچکا ہے۔ کام کا آغاز منور چورنگی سے آکر جوہر چورنگی کے گلے لگ جانے والی سڑک کی بندش سے کردیا گیا ہے، راستہ بند ہونے پر لکھے زحمت پر معذرت کے الفاظ اس سڑک پر سفر کرنے والوں کی تشفی تو کرسکتے ہیں کہ ان کے لیے یہ عارضی زحمت ہے اور مستقل رحمت، لیکن ایسے بھی تو ہیں جن کے روزوشب جوہر چورنگی سے جُڑے ہیں، جیسے وہ مزدور جن کی روزی اس چوک پر اترتی ہے۔ کدال، پھاو¿ڑے اور کدال سنبھالے ان مزدوروں کے لیے پُررونق، بازاروں سے گھری اور ہر لمحے بیسیوں گاڑیوں اور راہ گیروں کی گزرگاہ بنی یہ چورنگی چارسُو امکانات سے روشن مقام ہے۔ جوہر چورنگی نے ان محنت کشوں کو کبھی مایوس نہیں کیا، سو یہ یہاں کاٹھ کباڑ سے اپنی چھت بناکر بیٹھ گئے۔ لیکن اب وہ اپنی جوہرچورنگی کھونے والے ہیں اور وہ ٹوٹے دل کے ساتھ اس چورنگی پر ہوتی توڑ پھوڑ دیکھ رہے ہیں۔
ہر شام جوہر چورنگی کی رونقوں میں بڑی خاموشی سے ایک اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں ڈھول بجانے والے۔ پنجاب کا روایتی لباس پہنے یہ فن کار بڑا سا ڈھول لیے ڈھلتی شام چورنگی پر نمودار ہوتے ہیں۔ چورنگی سے امید لگائے کہ وہ اپنے کسی بھی راستے سے انھیں اپنی خوشی میں ڈھول کی تھاپ سجانے کا کوئی نہ کوئی خواہش مند لا ہی دے گی۔ یہ امید کیوں نہ ہو کہ اس چورنگی کے چاروں راستوں پر درجنوں شادی ہال جگمگارہے ہیں۔ چورنگی مٹ جانے کے بعد انھیں اپنے روزگار کے لیے چار راستوں سے محروم ہوکر کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔
جوہر چورنگی ایک ایک کونا گل فروش مہکائے ہوئے ہیں۔ گلاب اور موتیے کی خوشبو مفت میں بانٹتی فٹ پاتھ پر قائم پھولوں کی یہ دکانیں، جہاں پھول بیچنے والوں کے رزق کا بنیادی وسیلہ یہ چوک ہے۔ یہ چوک ان سے چھن جائے گا اور یہ گل فروش ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھ رہے ہیں ”ہے بکھرنے کو یہ محفلٍ رنگ وبو، تم کہاں جاﺅگے ہم کہاں جائیں گے۔“
”کہاں جائیں گے؟“ کا سوال اور بہت سی زبانوں پر بھی ہے۔ جیسے یہاں بچھتے چھیپا کے دسترخوان اور جے ڈی سی کے دسترخوانٍ امام حسنؓ پر پیٹ کی آگ بجھاتے مفلس۔ چوک کے اطراف محنت مزدوری کرتے اور چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر زندگی کی گاڑی کھینچتے ان لوگوں کے لیے یہ چورنگی پیٹ بھرنے کا ذریعہ ہے جہاں تک ان کی رسائی آسان ہے۔ انھیں یہ سوال پریشان کیے ہوئے ہے کہ اب جانے یہ دسترخوان کتنی دور بچھیں گے۔
یہ چورنگی مصیبت زدوں کا بھی سہارا ہے جہاں کھڑی ایدھی اور چھیپا کی ایمولینسیں درد اور تکلیف کی ہر آواز پر لبیک کے سارن بجاتی لپکتی اور منٹوں میں مریض یا زخمی تک جاپہنچتی ہیں۔
کراچی کے ہر چوراہے کی طرح اس چورنگی نے بھی سیلاب زدگان کے لیے اپنی جھولی پھیلادی، لیکن پھر یہ جھولی سمیٹنا پڑی اور یہاں متاثرین سیلاب کے لیے لگائے گئے کیمپ بوجھل دل کے ساتھ اکھاڑ دیے گئے۔ یوں ٹریفک کے سیل رواں کی ضرورت سیلاب کے ماروں کی چارہ گری کے آڑے آگئی۔
جوہرچورنگی پر لگی لال روشنی بہت سوں کی آنکھیں دمکادیتی ہے۔ ٹریفک سگنل کی یہ سرخ بتی جب جب جلتی ہے کتنے ہی پیر بریک کو دباکر ساکت ہوجاتے ہیں، اور اسی وقت بہت سے ہاتھ پھیلتے اور گاڑیوں کے شیشوں سے آلگتے ہیں۔ اس طرح یہ چورنگی تیزرو پہیوں کو روک کر ان بھکاریوں کے جینے کا سامان کرتی ہے جو دن بھر یہاں ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں خواجہ سرا ہیں جنھیں ان کی مائیں بھی نہ اپنا سکیں، لیکن اس چورنگی نے دور سے آتے تھکے ماندے راستوں کی طرح انھیں بھی گلے لگالیا۔ جوہرچورنگی کے اجڑنے کی کہانی میں اس ٹریفک سگنل کے اکھڑنے کا المیہ بھی شامل ہے جو یہاں کھڑے بھکاریوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔
اس چورنگی پر ہر سامان دست یاب ہے، سامان کی نقل وحمل کرنے والے ٹرک اور گاڑیاں بھی۔ فلیٹوں کی اس بستی میں کون سادن ہے جب کوئی کرائے دار پُرانے کو چھوڑ نئے آشیانے کی راہ لیتا ہے، اور اس سے پہلے وہ جوہر چورنگی پہنچ کر اپنے سامان کی منتقلی کا سامان کرتا ہے۔ اسباب ڈھوتے ڈرائیوروں سے بھی ان کی روزی کا یہ آسرا چھن جائے گا، گھربدلتے کرایہ داروں کی مشکل آسان کرنے والے آج خود اس فکر میں ہیں کہ اب کس جگہ کو اپنا ٹھکانا بنائیں۔
بیچ چوراہے ساجھے کی ہنڈیا چاہے پھوٹ جاتی ہو لیکن کاروبار ذاتی ہو یا ساجھے کا چوراہوں پر خوب چلتا ہے۔ جوہر چورنگی کے اردگرد بنے بازاروں اور چاروں طرف لگے ٹھیلوں کا کاروبار بھی خوب چلتا رہا اور یہاں رونق بازار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اس چوراہے کے راستے کے پتھر کی طرح ہٹائے جانے کے بعد یہ دکانیں چار سمتوں سے آتے گاہکوں سے محروم ہوجائیں گی۔ پُل کے اوپر اور زیرزمین راستے سے زن سے گزرتی گاڑیاں برسوں قبل مسمارشدہ ”ڈرائیو اِن“ سنیما کی زمین پر اُگ آنے والے شاپنگ مالز کا رخ کریں گی اور جوہرچورنگی کے گرد کاروبار جمائے دکان دار اور ٹھیلے والے کبھی سراٹھاکر کبھی جھکا کر گزرتے گاہکوں کو حسرت سے دیکھتے رہ جائیں گے۔ اس وقت انھیں یہ چورنگی کتنا یاد آئے گی جو دور دور سے خریداروں کو لاکر ان کی دکانوں پر کھڑا کردیتی تھی۔
سارا دن گاڑیوں، دکان داروں اور خریداروں کا شور رات گہرے اندھیروں میں تھمتا ہے تو جوہرچورنگی چائے کی پیالیوں کی وہ کھنک سن پاتی ہے جو شاید اسے آوازوں میں سب سے زیادہ پسند ہے، کیوں کہ چائے خانوں سے آتی ان صداﺅں میں لین دین کے سکے بج رہے ہوتے ہیں نہ گاڑیوں کے ہارن کی چیخ پکار ہوتی ہے۔ چائے کی پیالیوں کی اس کھنک کے ساتھ یاروں کی گپ شپ، شاعروں ادیبوں کے نکھرے لہجے، صحافیوں کی رازوں کے پردے اٹھاتی گفتگو اور عاشقوں کے دل کی حالتیں سننے کو ملتی ہیں۔ چورنگی کی سماعت گم ہونے پر جانے ان چائے خانوں اور ان کے سجانے والوں پر کیا گزرے گی۔ راستوں کی پیچیدگی فاصلے بڑھائے گی تو یہ محفلیں آباد رہ پائیں گی؟ یہ فکر چینک پر چینک بناتے چائے خانوں کے ”خانوں“ کو بھی فکرمند کیے ہوئے ہے اور اور یہاں بیٹھ کر پیالی پر پیالی لنڈھانے والوں کو بھی۔
جوہرچورنگی جو ہمارے درمیان نہیں رہے گی، ایک چوراہا ہی نہیں یہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ یہ ایک حسین یاد ہے، ان کے لیے جو کسی کے شدید انتظار کے بعد پہلی بار یہاں اس سے ملے تھے، جب اس چورنگی پر لمحے صدیاں بن کر گزرے تھے اور وہ کسی بس یا چنگچی سے طلوع ہوا تھا تو چورنگی کی گولائی چودھویں کا چاند بن گئی تھی۔ یہ کسی کے لیے درد کا احساس بھی ہے، جس نے اس چوک پر آخری ملاقات کا کرب سہا تھا اور یہ ملنے والے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے سے پہلے ایک دوجے کو اپنی آنکھوں میں اتارتے سوچتے رہے تھے کہ کاش سامنے سے گزرتے ان چار راستوں سے کوئی پانچوں راستہ نکل آئے جو انھیں ہم سفر بناکر ساتھ لے جائے، یہ چورنگی کتنے دلوں کے لیے کسی المیے کا داغ بھی ہے، جن کا پیارا یہاں کسی حادثے کی نظر ہوا، کسی راہ زن کی سفاکی کا نشانہ بنا۔
جوہر چورنگی ایک پتا ہے، اب کون کہے گا جوہرچورنگی پہنچ کر مس کال دینا، اور آنے والا ایک بار بھی نہیں پوچھے گا ”کہاں ہے یہ جوہرچورنگی“
جوہر چورنگی سہارا، آسرا، امید، امکان، یاد اور رومان۔
لیکن اکثر لوگوں کے لیے یہ شاید بس اپنے ہجوم اپنی لال بتی سے سفر کی رفتار کم کرتی ایک رکاوٹ، وہ ایکسیلیٹر دبائے کیسے مسرور ہوکر اس اجڑے دیار سے گزریں گے۔ کچھ دنوں بعد انھیں یاد بھی نہ ہوگا کہ ایک تھی جوہر چورنگی۔