تحریر : ڈاکٹر عنبرین حسین عنبر
ہم نے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے جن شخصیات کے لیے اپنے دل میں بے پناہ عقیدت و احترام محسوس کیا وہ ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیات جامعہ کراچی میں ہماری والدہ کی استاد رہیں اور وہ اپنے بہترین اساتذہ کا جب بھی ذکر کرتیں تو ان دونوں کا ذکر سب سے اچھے الفاظ میں ہوتا۔ والدہ کی ان دونوں شخصیات سے عقیدت کا یہ حال تھا کہ جب ہم نے پی ایچ ڈی کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا تو والدہ کی شدید خواہش تھی کہ ہم ان دو میں سے ہی کسی کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کریں مگر افسوس کہ اس وقت تک کمزوری کے باعث یہ دونوں حضرات اس فرض سے سبک دوش ہو چکے تھے۔ مگر ہماری والدہ اور ہمیں اس کی بے حد خوشی ہے کہ پی ایچ ڈی میں ہمارے ممتحن ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب تھے۔ اس عمر میں بھی ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے امتحان سے پہلے بتایا کہ اتنے سال، اتنے ماہ اور اتنے دن پہلے فلاں تاریخ اور فلاں وقت آپ کے والد بھی اسی کمرے میں ملازمت کی غرض سے یہاں بیٹھے تھے اور میں نے ہی ان کا امتحان لیا تھا اور آج میں آپ کا ممتحن ہوں۔ اور امتحان کے بعد فرمایا کہ جتنی خوشی مجھے آپ کے والد کا امتحان لے کر ہوئی تھی اتنی ہی خوشی میں آج آپ کا امتحان لے کر محسوس کر رہا ہوں۔ ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ ہمارے لیے کسی بھی اعزاز سے کہیں بڑے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اسلم فرخی صاحب خود بہت بڑے آدمی تھے اور اس کا مظاہرہ انھوں نے ہر بار کیا۔
ہمیں فرمان فتح پوری صاحب تو شفیق محسوس ہوتے تھے مگر اسلم فرخی صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی ہمیں ان کی شخصیت نہایت بارعب اور سنجیدہ لگتی۔ سب جانتے ہیں کہ کسی سے بڑھ کر ملنا تو ہمارا مزاج ہی نہیں ہے مگر اسلم صاحب کو دیکھ کر تو ہم باقاعدہ کنی کترانے کی کوشش کرتے کہ مبادا کوئی گستاخی نہ ہو جائے مگر ان کی بڑائی ہے کہ وہ خود ہر بار بڑھ کر ہم سے ملتے، ہمارے والدین خصوصاً والدہ کی بابت دریافت کرتے اور جواب میں ہم نپا تلا جواب دے کر چپ ہو رہتے پھر جب آنٹی ( بیگم اسلم فرخی) بات کرنے لگتیں تو ہماری جان میں جان آتی اور ہم ان سے آرام سے بات کر لیتے۔
اب جب ہم ادارت کرنے لگے تو ہمیں خواہش ہوئی کہ ہم اپنے کتابی سلسلے ” اسالیب” کے لیے ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا تفصیلی انٹرویو کریں۔ اس انٹرویو کا اہتمام آصف فرخی صاحب ( انھیں مرحوم لکھنے کو ہمارا دل آج بھی آمادہ نہیں ہوتا) نے کیا اور یہ انٹرویو ہو گیا۔ اس دوران ہمیں پہلی مرتبہ اسلم صاحب کی شفقت اور شگفتگی دونوں کا احساس ہوا اور ملال ہوا کہ خواہ مخواہ زندگی بھر ہم ان سے کھنچے رہے( افسوس کہ جو احساس سارا وقت گنوا کر ہوا کاش پہلے ہو جاتا)۔ لہٰذا جب ہم ان کے حکم پر انٹرویو ٹرانسکرائب کر کے سنانے پہنچے تو اپنا پہلا شعری مجموعہ” دل کے افق پر” اور اس کی تقریب اجرا پر شائع ہونے والا کتابچہ بھی لے گئے اور بصد احترام اسلم صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوں نے کتابچے کے پیچھے لکھا ہمارا شعر دیکھا( جو ہم نے بطور اپنے تعارف لکھا تھا) اور کتابچہ ہماری جانب واپس بڑھاتے ہوئے کہا ” اس شعر کو باآواز بلند پڑھیے”. یا اللّٰہ! ہمارے ماتھے پر پسینہ آ گیا ہم فوراً سمجھ گئے کہ شعر میں کوئی گڑ بڑ ہے مگر کیا؟ یہ سمجھ نہیں آیا۔ بہرحال مرتے کیا نہ کرتے ہم نے باآواز بلند شعر پڑھا
“تنہا ترقیوں کے سفر میں نہیں ہوں میں
میرا وقار، میری انا میرے ساتھ ہے”
( اس وقت تک یہ شعر یونہی تھا اور ہم مشاعروں میں یہ شعر اسی طرح پڑھتے تھے اور کتابچہ پر آج بھی یونہی چھپا ہوا ہے).
شعر پڑھ کر ہم نے تھوک نگلا اور ڈرتے ڈرتے سوالیہ نظروں سے اسلم صاحب کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نے کچھ حوصلہ دیا اب وہ بڑی شخصیت یوں گویا ہوئے, ” دیکھیے آپ باقاعدہ شاعرہ ہیں اور بہت بڑے شاعر کی بیٹی ہیں، خود صاحب دیوان ہیں۔ میں نے خود کو کبھی باقاعدہ شاعر نہیں سمجھا نہ میں ہوں تو اس میدان میں میری حیثیت آپ کے سامنے طالب علم کی سی ہے لیکن اگر آپ اس طالب علم کی ایک درخواست پر غور کریں تو مجھے لگتا ہے کہ اس شعر میں کچھ تبدیلی ضروری ہے تب یہ آپ کا درست تعارف بنے گا!”
ان کے اس انکسار پر ہمیں اپنی آواز حلق میں پھنستی محسوس ہوئی۔ ہم نے ہاتھ جوڑ دیئے اور بمشکل عرض کی، ” وہ کیا؟”
اسلم صاحب نے فرمایا،” جتنا میں آپ کو جانتا ہوں آپ دنیا دار نہیں ہیں، دنیا آپ کی طلب ہے نہ منزل، آپ کی مٹی الگ ہے۔ آپ اس بھیڑ بھاڑ اور ہاؤ ہو میں ہوتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہیں ہیں۔ ترقی کا سفر دنیاوی لوگ کرتے ہیں یہ افقی سفر ہوتا ہے اور اس کا زاد سفر بھی الگ ہوتا ہے، یہ آپ کا سفر نہیں ہے کیوں کہ آپ جس سفر پر اپنے وقار اور انا کے ساتھ گامزن ہیں وہ عمودی ہوتا ہے تو آپ اسے بلندی کر لیجیے تب یہ آپ کا مکمل اور درست تعارف بنتا ہے۔ اب شعر پھر پڑھیے”
ہم اسلم صاحب کی یہ بات سن کر دنگ رہ گئے۔ وہ شخصیت جس کے ہم کبھی قریب نہیں رہے وہ ہمیں بخوبی جانتی تھی! اس احساس نے ہمارے ہاتھ پیر ٹھنڈے کر دیئے، ساتھ ہی اس خوشی کا بے پناہ احساس کہ اسلم صاحب نے ہمیں اصلاح دی ہمیں بے حال کر رہا تھا۔ بخدا دل رقص کرنے کو چاہ رہا تھا مگر بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور فوراً اسلم صاحب کی اصلاح کو تبرک سمجھ کر رکھ لیا اور خوشی سے کانپتی آواز میں شعر دوبارا پڑھا جو اب یوں تھا:
تنہا بلندیوں کے سفر میں نہیں ہوں میں
میرا وقار، میری انا میرے ساتھ ہے
جب ہم نے یہ بات اپنے والد کو بتائی تو انھوں نے کہا” تمہارے درون کو اسلم فرخی صاحب جیسی شخصیت ہی پہچان سکتی ہے کیوں کہ انسان کو پہچاننے میں سامنے والے کی اپنی شخصیت سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے”
یہ یاد ہم اسلم صاحب کے انتقال کے موقع پر آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس میں سنا چکے ہیں۔ مگر کل یہ یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی جب ہم نے یہ شعر فیس بُک پر پوسٹ کیا اور نجیب جمال صاحب کا کمنٹ آیا کہ” شعر کا خیال اور تمہارا مزاج اصل میں دونوں ایک ہیں۔” ہمیں بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کیوں کہ نجیب صاحب تو کراچی میں بھی مقیم نہیں ہیں۔ ان سے ہماری گنتی کی تین یا چار ملاقاتیں ہیں جو سلام دعا سے آگے کی نہیں۔ مگر وہ اتنی دور سے ہمارا مزاج پہچان گئے! کمال ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ ادراک ہوا کہ مردم شناسی بھی ایک بڑی صلاحیت ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ اس لیے کبھی کوئی کوسوں دور سے ہمیں پہچان لیتا ہے اور کبھی کوئی قریب رہ کر بھی ہمیں نہیں جان پاتا لہذا ہم جو شاکی رہتے ہیں کہ ہمارے قریب رہنے والے بھی ہمیں نہیں پہچان پائے تو ہمیں شاکی ہونے کے بجائے ان کی مجبوری سمجھتے ہوئے ان کی طرف سے دل میں ملال نہیں کرنا چاہیے اور جو سمجھ لے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
آخر میں ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت۔ کیا بڑے لوگ تھے جو ہمارے درمیان سے اٹھ گئے افسوس
One reply on “ہمارا ایک شعر اور اسلم فرخی اور فرمان فتح پوری صاحب”
بہت عنایت۔ سلامت رہیں