تحریر: رضوان طاہر مبین
کچھ عرصے قبل ہم نے ناظم آباد، کراچی کے ننھے محنت کش عبدالوراث کا ایک عدد انٹرویو کیا، جو 25 جنوری 2021ءکو ’سنڈے ایکسپریس‘ کی زینت بنا، عبدالوارث سے ہماری ملاقات اور اس کے احوال کی اشاعت کے درمیان تیکنیکی وجوہات کی بنا پر آٹھ، دس روز کا وقت لگا تاہم اس انٹرویو سے ہمیں ان کی ’سرکاری امداد سے انکار‘ کی ایک ’خصوصی خبر‘ حاصل ہوگئی تھی، جو کسی اور کے پاس نہ تھی، اور 19 جنوری کو یہ خبر ’ایکسپریس‘ کی زینت بھی بن گئی اس دوران مختلف خبری چینلوں کی جانب سے بھی عبدالوارث سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایسی ہی ایک ملاقات ایک نجی چینل کے صبح کے پروگرام میں ہوئی، جس میں 13 سالہ عبدالوارث نے اپنے بارے میں کچھ گفتگو کی جیسا کہ یہ کہ اس کی والدہ اور بہن گھروں میں کام کرتی ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سہارا بنیں اور انھیں کام نہ کرنے دیں ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، والد بھی پنجاب میں ہی ہوتے ہیں، جنھیں وہ خرچہ بھیجتے ہیں، وہ بہت چھوٹے سے تھے، جب سے ان کی والدہ نے انھیں کراچی میں ایک گھر میں چھوڑ دیا، جن کی دکان پر وہ گذشتہ سات برس سے کام کر رہے ہیں۔ یہی نہیں انھوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کا گھر تو بہت چھوٹا سا ہے اور ان کی والدہ انھی صاحب کے گھر میں (جنھیں وہ اپنے والد کی جگہ سمجھتا ہے اور چچا کہتا ہے) یہ تمام چیزیں تیار کرتی ہیں
جوں جوں ہم یہ گفتگو سن رہے تھے، اس بات پر رشک بھی کر رہے تھے کہ دیکھیے چینل کی میزبان نے عبدالوارث سے کیسے اس کی ذاتی اور نئی معلومات حاصل کرلیں، دوسری طرف ہمارے اندر ایک طرح کا محاسبہ بھی شروع ہوگیا کہ پھر ہم نے کیا جَھک ماری اگرچہ ہم نے باقاعدہ ’نامہ نگار‘ نہ ہونے کے باوجود سرکاری امداد نہ لینے کی ایک ’خصوصی خبر‘ بھی دی، جو اس کے بعد کئی معاصرین سمیت 16، 17 مختلف خبر رساں ویب سائٹ پر بھی لی گئی، اور سوائے ’اردو محفل‘ کے کسی نے بھی ہمارا نام دینے کی زحمت گواراہ نہیں کی۔ اگر ’گوگل‘ پر یہ لکھیے کہ ’خوددار بچے نے سرکاری امداد لینے سے انکار کر دیا‘ تو بالترتیب تمام ویب سائٹوں کی فہرست سامنے آجاتی ہے، حد تو یہ ہوئی کہ ’ایکسپریس‘ کے صفحہ نمبر دو پر ہماری اس خبر اشاعت کے دو روز بعد ’نوائے وقت‘ (کراچی) نے اپنے ’صفحہ¿ اول‘ پر وہی خبر ایک خبری ایجینسی ’آئی این پی‘ کے ’ذریعے‘ سے لگائی خیر، ہمیں اس ’چوری‘ کی خوشی زیادہ ہوئی کہ ہم سے کچھ کام ایسا تو ہوا کہ جو ’لائق سَرقہ‘ تھا۔
تو جناب، ہم ذکر کر رہے تھے، اپنے ’احتساب‘ کا، تاکہ اپنی ناکامیوں کو دیکھیں اور آئندہ زیادہ سلیقے اور طریقے سے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے انصاف کر سکیں لہٰذا ہم نے اپنے ذہن میں عبدالوارث سے اپنی ساری ملاقات دُہرائی، تو قدرے مطمئن ہوئے کہ ہم نے بھی تو عبدالوارث سے اس کے گھر کے واحد کفیل ہونے کا سوال پوچھا تھا، انھوں نے ہمیں تو اثبات میں جواب دیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کے والد کچھ برس پہلے تک پتھارے وغیرہ لگاتے تھے، والد کے پنجاب میں ہونے اور والدہ اور بہن کے گھروں میں کام سے لے کر ذاتی زندگی کی تفصیلات بتانے سے انھوں نے کئی بار انکار کیا تھا اور صَفا طور پر یہ کہا تھا کہ وہ مزید باتیں نہیں بتانا چاہتے! اب اس کا سبب کچھ بھی رہا ہو، ہم نے تو اپنا ذمہ پورا کیا تھا یہ تو ان کی صوابدید تھی کہ وہ جو چاہیں بتائیں اور جو چاہیں نہ بتائیں
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہفتے بعد انھوں نے فیصلہ کیا ہو، یا ان کے کسی بڑے نے ان سے یہ کہا ہو کہ انھیں یہ باتیں بتا دینی چاہیئں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نجی چینل نے انھیں صبح کے وقت بلایا اور اس کے بدلے میں ان کی دن بھر میں فروخت ہونے والی چیزیں بھی ایک ساتھ خرید لیں، جس سے متاثر ہو کر انھوں نے یہ ’عنایت‘ کر دی ہو، کیوں کہ ہم رات کے وقت گئے تھے، تو یہ ان کے کام کا وقت تھا اور ملنے جلنے والوں اور دو عدد چینلوں کے نمائندوں کی آمد کے سبب وہ کافی مصروف تھے اور اس کے بعد ہم سے کی جانے والی گفتگو کے بعد انھیں مزید سامان لینے گھر بھی جانا تھا اور دوسری طرف ہمیں طویل انتطار کے بعد شہر کے اگلے سِرے پر موجود اپنے گھر لوٹنا تھا اور ہماری واپسی کا انحصار ’عوامی سواریوں‘ کی دست یابی پر تھا اس لیے ہم اب اس سے زیادہ انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
جب ہم ان تمام عوامل کا جائزہ لیتے ہیں، تو صحافتی اخلاقیات کے دائرے میں ایک عام ہو جانے والے قصّے پر ہماری کارکردگی کوئی زیادہ بری تو نہ تھی، سوال بہت سارے ہم نے بھی کیے تھے، بوجوہ جواب ہمیں نہ دیے گئے، جس میں ظاہر ہے ہمیں دوش نہیں۔
٭٭٭٭