Categories
انکشاف ایم کیو ایم رضوان طاہر مبین قومی تاریخ کراچی

”ڈولفن“ مارکہ کُرکُرا ”بلدیاتی منجن“۔۔۔!

تحریر: رضوان طاہر مبین
میٹھا میٹھا ہپ ہپ کیا ہوتا ہے، اگر آپ کو یہ سمجھنا ہو تو اس کی مثال آج کل سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال صاحب بنے ہوئے ہیں، جن کی سیاست کا محور اپنے سابق قائد اور سابقہ سیاسی جماعت کی بھرپور مخالفت پر مبنی ہے۔ ٹھیک ہے، انھیں پورا حق ہے، اگر وہ اپنے سیاسی قبلے بدلنے کو ’بانی پاکستان‘ کے کانگریس سے آل انڈیا مسلم لیگ تک جیسے ’اصلاحی سفر‘ اور کبھی فرعون کے گھر میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی پرورش جیسی مثالوں سے ”مدلل“ بنانے سے بھی نہیں چُوکتے تو، ٹھیک ہے، لیکن عجیب مخمصے میں وہ بھی تو دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ اور 2018ءکے عام انتخابات میں جوتیوں میں بٹنے والی دال تو انھیں نہ مل سکی، جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ موصوف نے اپنی ’جوتیاں ‘ دی ہی نہیں تھیں، سو وہ ان کے ’نصیب‘ کی دال ’بٹے ہوئے‘ لوگوں ہی میں بٹ گئی۔۔۔!
خیر، اب پھر لولے لنگڑے اور نام نہاد اختیارات کی حامل بلدیاتی حکومت کے 28 اگست 2022ءکے انتخابات میں وہ حسب سابق کراچی کے عوام کا اعتماد چاہتے ہیں، اور وہ اعتماد جو وہ ’فرعونی اثر‘ والے زمانے میں جسے تب وہ دراصل اسی ”فرعون“ کا اعتماد قرار دیتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ بہرحال اب وہ ’توبہ تائب‘ ہو چکے ہیں اور اب جب کہ ان کی یہ مارچ 2016ءمیں سامنے آنے والی زبردست ”توبہ“ اب ”قبول“ بھی ہو چکی ہے، توہم کون ہوتے ہیں اس میں مخل ہونے والے۔ لیکن صاحب جب ہماری آنکھوں کے سامنے ایسی دوغلی باتیں آئیں گی، تو بطور کراچی کے عام شہری اور اپنی قوم کا احساس رکھنے والے ایک فرد کے، ہم اس پر اپنی رائے بھی ضرور سامنے رکھیں گے۔
اب جناب مصطفیٰ کمال صاحب کی بلدیاتی انتخابات کی ’اشتہاری‘ مہم میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ دیکھو میں نے اپنی نظامت میں کیا کیا؟ یعنی وہ جو ان کی ’گم راہی‘ اور دراصل ”ملک دشمنی“ کا دور تھا۔ وہ انتخابی مہم میں اسی دور کے کارنامے گنوا رہے ہیں کہ یہ سب ”میں“ نے کیا۔ حالاں کہ وہ اپنی ”گم راہی“ کے زمانے کے بیش تر انٹرویو میں خود قبول چکے ہیں کہ ان کی حیثیت کیا تھی، اور انھوں نے کس کی حمایت اور ساتھ سے یہ سارے کارنامے انجام دیے۔ اب چوں کہ مصطفیٰ کمال کو ”ہدایت“ مل چکی ہے۔ تو اب ان کا آسان موقف کچھ اسی کی عملی تعبیر اور تصویر بن چکا ہے کہ ”میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو۔“
بنیادی سوال تو پھر یہ پیدا ہوتا ہے، جس سے مصطفیٰ کمال صاحب کی موجودہ سیاست لمحے بھر میں ڈھے جاتی ہے، کہ اگر اس ”ملک دشمنی“ کے دور میں کراچی اتنا جگ مگا رہا تھا، تو یہ ”ملک دشمنی“ تو بڑی اچھی رہی بہ نسبت آج کی ”حب الوطنی“ کے!!
کیوں کہ مصطفیٰ کمال صاحب بہ الفاظ دیگر یہ فرما رہے ہیں کہ جو پارک بنا وہ میرا، جو قبضہ ہوا وہ قائد نے کیا۔۔۔
جو پانی ملا وہ میں نے دیا، جو چوری ہوا قائد نے کیا۔۔۔
جو پل بنا وہ میں نے بنایا، جو گر گیا وہ الطاف کا!
جو سڑک بنی میری، جو ا’دھڑی ’بھائی‘ کی۔
سڑکوں پر جو بلب جلا وہ میرا، جو ’جل‘ ہی گیا وہ ان کی پچھلی جماعت کا۔۔
گلیوں کی جو صفائی ہوئی، وہ میں نے کرائی، جو گند ہوئی وہ ظاہر ہے سابقہ راہ نما کی۔
جو کالج بنے، وہ میں نے بنائے، جو نہ بن سکے وہ ’اُن‘ کے۔۔۔
الغرض شہر کے وہ سارے منصوبے، وہ ساری اچھائیاں، وہ ساری بہتری، وہ سب خوبیاں ہمارے شہر قائد کے سابقہ ناظم اعلیٰ نے اتنی سفاکی سے اپنے دامن میں سمیٹ کر باقی ساری خرابیوں کے کنکر، پتھر یوں پچھلی جانب پھینک دیے ہیں کہ جیسے وہ ملک کے سب سے باشعور شہر سے نہیں، بلکہ کسی پس ماندہ ترین ’یونین کونسل‘ میں اپنے مزارعین کو بے وقوف بنا رہے ہیں!!
مطلب بے تکے پن اور کھلے تضادات کی بھی کوئی تو حد ہوتی ہے۔ ’میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کی اس سے زیادہ سفاک مثال شاید اور کہیں نہیں ملے گی۔ بھئی، اگر آپ کا ظرف اتنا بڑا ہے تو یا پھر آپ اپنی سیاست کا محور ہی کم ازکم ایسا رکھتے کہ اس میں کسی طرح اس استدلال کی کوئی جواز کوئی گنجائش بن جاتی کہ لوگ یہ نہ کہتے کہ ”یہ آدمی ہمیں کہاں لے آیا ہے؟“ کیوں کہ آپ اس تنظیم کا فعال اور بااختیار حصہ تھے اور اس کی اس وقت کی ساری برائیوں میں بھی برابر کے حصے دار تھے اور اچھائیوں میں بھی۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ سب اچھا اچھا خود رکھ لیں اور ساری برائیاں وہاں پھینک دیں۔۔۔ یہ کوئی سرکس لگا ہوا ہے، تماشا لگا ہوا ہے یا پھر منے بچوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے؟
آج مصطفی کمال اپنے ’ڈولفن‘ کے انتخابی نشان کے ساتھ سابقہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی مکمل و منظم سیاسی جماعت اور اس کی اس وقت کی قیادت کے زیر نگرانی ہونے والے اچھے کاموں کو صرف اپنے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ کراچی کے بچے بچے کو پتا ہے کہ اول تو یہ کام جنرل پرویز مشرف کے خود مختار سیاسی نظام کا نتیجہ تھے، دوسرا یہ تنہا مصطفیٰ کمال یا کسی ’پاک سرزمین پارٹی‘ نامی سیاسی جماعت کے نہیں، بلکہ الطاف حسین کے زیر قیادت اس وقت کی متحدہ قومی موومنٹ کا ہی کارنامہ تھا۔ اس وقت کی چائنا کٹنگ اور قبضوں کی برائیوں سے لے کر ساری برائیوں میں جیسے متحدہ قومی موومنٹ ملزم ہے، بالکل ایسے ہی مصطفیٰ کمال صاحب بھی برابر کے ملزم ہیں۔ اور اسی طرح اچھائیوں میں اگر مصطفیٰ کمال کا کوئی کارنامہ ہے، تو الطاف حسین اور اس کی پوری متحدہ قومی موومنٹ کا بھی ’کمال‘ ہے۔ یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ’ایم کیوایم کا کمال تھا‘ نہ کہ ’پی ایس پی کا کمال“
ہمیں حیرت ہے کہ شہر بھر کا سیاسی مزاج جاننے والے سید مصطفیٰ کمال نے آج یہ کیسے سوچ لیا کہ وہ اس طرح سامنے کے اتنے بڑے سچ کو ایسے خلط ملط کر کے اس شہر کے باسیوں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ حقیقت وہ بھی خوب جانتے ہیں، چاہے یہ وہ زبان سے نہ کہیں، ان کے چہرے کے تاثرات نہ جانے کیوں چغلی کھاتے ہیں، جب وہ اپنی نظامت کے سارے منصوبے تن تنہا خود ’نگل‘ رہے ہوتے ہیں۔ خیر، ہماری اس تحریر کا مقصد خالصتاً زمینی اور تاریخی حقائق کی درستگی ہے، نہ کہ کسی کی حمایت مقصود ہے اور نہ مخالفت۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *