تحریر: رضوان طاہر مبین
آج پھر 5 ستمبر ہے۔۔۔
یہ تو اب سبھی بھول چکے ہیں کہ آج سے پورے 75 برس پہلے ’بائیس خواجگان کی چوکھٹ‘ کہلانے والی ’دلّی‘ پر کیا بیتی تھی۔۔۔؟ وہ دلی جو کبھی صرف ہماری تھی!
1947ءمیں، پانچ ستمبر کو جب بٹوارے کو ہنگام ہوئے ابھی 21 ہی دن گزرے تھے۔۔۔یعنی پورے تین ہفتے!
دلی کی فضا سہمی سہمی سی تھی، مغربی پنجاب میں ہونے والے فسادات کے اثرات سے مشرقی پنجاب سلگنے لگا تھا اور اس کی تپش دلی میں بہت واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
ایک ویرانی تھی، خاموشی کہہ لیجیے، لیکن بالکل ایسی ہی خامشی کہ جیسے کسی طوفان کی آمد سے قبل ہوتی ہے۔۔۔
90 برس کا پھیر مکمل ہو چکا تھا 1857ءکو۔۔۔ لہو کی پیاسی شیطانی قوتیں نئی شکلوں میں ظاہر ہو رہی تھیں، دلی کی مانگ ایک بار پھر اجڑنی تھی۔۔۔ دلی والوں کو 90 سال بعد ایک بار پھر اپنے شہر سے بے دخل ہونا تھا، 1857ءمیں غضب ناک انگریزوں کی جانب سے گھروں سے نکالے جانے والی تاریخ اب ’مقامی استعماریوں‘ کے ہاتھوں اور طرح دُہرائی جانے والی تھی۔۔۔
اپنے بزرگوں کو ’غدر‘ کی خوف ناکیوں سے پناہ مانگتے دیکھنے والے ”بچے“ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ عمر کے آخری حصے میں انھیں ”1947ءکا غدر“ دیکھنا نصیب کیا گیا ہے۔۔۔ وہ بھی اپنے آبا کی طرح گھروں سے نکالے جائیں گے۔۔۔ قلعے والے اور جامع مسجد کے رکھوالے ایک بار پھر عجب بے چینی میں مبتلا تھے کہ پتا نہیں، ضرور کچھ ہونے والا ہے۔۔۔
ہندوستان تقسیم ہو چکا ہے، دلی اب ’پاکستان‘ میں نہیں۔۔۔ شاید پہلے تو ’پاکستان‘ بھی کہیں نہیں تھا، لیکن شاید کچھ تو تھا، کوئی خیال تھا، کوئی احساس تھا، جو آج کی طرح بے گانہ نہیں ہونے دیتا تھا۔۔۔ آج بہت بے کلی تھی، چہ می گوئیاں تھیں، خاندان بٹ رہے تھے، اُدھر والے جوق درجوق اِدھر آرہے تھے، اور اب شاید اِدھر والوں کو نکال باہر کر کے آنے والوں کے لیے بھی جگہ خالی کرنا تھی۔۔۔ لاکھ موہن داس گاندھی کوشش کرتے رہے۔۔۔ ابو الکلام آزاد دلی سے جانے والے قافلوں کو روکتے رہے۔۔۔ مگر صاحب جب سارے خدشات حقیقت بن رہے ہوں، تو باتیں اور حقائق پر غور کون کرتا ہے۔۔۔
سو دلی والوں کی تقدیر میں 5 ستمبر 1947ءبھی آگئی۔۔۔
کسے معلوم تھا کہ دلی والوں کے لیے برکتوں والے جمعے کے دن کے جلو سے کیا برآمد ہونے والا ہے۔۔۔ شرپسندوں نے شرپسندی کر دکھائی۔۔۔ شاہ جہاں کے دور کی تاریخی فتح پوری مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران بم دھماکا ہوا۔۔۔! یہ آج سے 75 برس پرانا بم تھا، یقیناً آج کے مہلک اور بارود بھرے بموں سے کہیں کم خطرناک ہوگا، لیکن صاحب اثرات اس کے 1945ءکے ایٹم بم سے کسی طرح کم تو نہ تھے۔۔۔
میر تقی میر کا ’اجڑا دیار‘ ٹھیک سے سنورنے بھی نہ پایا تھا کہ پھر بکھر کر رہ گیا۔۔۔ بس وہ لوگ جو جیسے تیسے جی کڑا کر کے اپنا جی دلی سے لگا کر جمے بیٹھے ہوئے تھے، کہ کچھ نہیں ہوگا، اب یکایک حوصلے ہارنے لگے تھے۔۔۔ فتح پوری مسجد میں بم پھٹنا ایک ایسی اہدافی کارروائی تھی کہ جس کا اصل مقصد دلی کو مسلمانوں سے خالی کروانا تھا۔۔۔ سو دھیرے دھیرے سلگتی دلی ایک دم جل اٹھی۔۔۔ دلی والوں پر ایک بھونچال ٹوٹ پڑا اور افراتفری مچگئی۔۔۔
افواہوں کا بازار گرم ہوا۔۔۔ راتوں کو پہرے دیے جاتے۔۔۔ جب مسلمان محلوں میں لوگ افواہوں سے ’بیزار‘ ہو کر غفلت برتنے لگے تھے، بلوائیوں کے نشانے پر آگئے۔۔۔ سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا کہ ’رات کو حملہ ہوگا‘ کو ’افواہ‘ سمجھ کر گھروں میں بیٹھے رہنے کا حوصلہ بہادری ہوگا یا بے وقوفی۔۔۔!
پھر دلی کے گلی کوچوں میں آتش زنی اور خنجر زنی بھی بہت عام ہو چکی تھی۔۔۔ بہت سے ستم زدہ عارضی پناہ لینے کو پرانے قلعے گئے تو پھر بے سروسامانی کے عالم میں انھیں اپنی ڈیوڑھی پلٹنا بھی نصیب نہ ہوا۔۔۔ ستمبر 1947ءکی غیر معمولی برسات میں اپنے آبائی نگر میں اجنبی ہو چکے تھے۔۔۔ بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگوں کو یہاں قطار باندھ کر روٹی ملتی، اور وہ بھی کبھی مسیر نہ ہوتی۔ ’قلعے‘ میں مختلف بیماریوں نے بھی کام دکھایا، اب جان کے لالے پڑ رہے تھے، یہاں دوا دارو کا کیا بندوبست ہوتا۔۔۔ نتیجتاً قلعے میں کئی اموات ہوئیں۔۔۔ اور ستم یہ کہ لوگوں کو قبرستان جانے کا موقع بھی نہ تھا اور انھوں نے مجبوراً رو دھو کر اپنے پیاروں کو اسی قلعے کے سینے میں اتار دیا۔۔۔!
یہ ہجرت، یہ ستم، یہ مشقت، یہ کشٹ براہ راست ہم نے تو نہیں اٹھائے، لیکن ہمارے بزرگوں نے ضرور جھیلے ہیں۔۔۔ اور آج کا دن اس ہجرت میں ناقابل فراموش ہے۔ یہ دن ہماری تاریخ میں تب تک ان مٹ رہے گا، جب تک ہم موجود ہیں، جب تک ہماری تاریخ، ہماری شناخت، ہماری تہذیب اور ہمارا تعارف اِس ہجرت سے جڑا ہوا ہے، تب، تب ہر 5 ستمبر کو ہجرت کرنے والے اور بالخصوص پرانی دلی والوں کی نسلیں اپنا کلیجہ تھام کر ضرور رہ جائیں گی اور وہ آنسو جو ہماری ہجرت کرنے والی ماﺅں، نانیوں اور دادیوں نے اپنی
دلی کی یاد میں ہمارے سامنے کبھی نہیں بہائے، وہ بار بار ہماری پلکوں کو بھگوتے رہیں گے!
……
”سمے وار“ کے لیے اپنے مضامین)
samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں