تحریر: رضوان طاہر مبین
پرانے محلّوں میں صرف ہمارا ماضی ہی نہیں ہوتا، بلکہ جان پہچان اور شناسائیوں کو ایک ایسا جہاں آباد ہوتا ہے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر یا تو وہ بالکل ہی مٹ جاتا ہے، یا پھر اس میں اجنبیت در آتی ہے۔ یہ بھی نہ ہو تو کم سے کم ماضی والی بات برقرار نہیں رہتی گذشتہ دنوں ہماری توجہ یکایک ہمارے پرانے محلے کے ایک ایسے ہی ’کردار‘ کی طرف چلی گئی۔
ہوا یوں کہ ہمارے بھانجے صاحب کی بائی سائیکل کی ’چین‘ کا کچھ مسئلہ آن پڑا تھا، سو ایک اتوار کی دوپہر کو ہم ان کے ساتھ سائیکل لیے اپنے محلے کے ”ماما سائیکل والے“ کے پاس جا پہنچے۔ سائیکلوں سے لے کر موٹر سائیکلوں سے جُھوجھتا ہوا ماما سائیکل والا آج بھی اپنی دکان پر ”ماموں سائیکل والا“ کا تختہ سجائے ہوئے بیٹھا مختلف اوزاروں سے کاری گری دکھانے میں مشغول تھا۔
ہمارے بچپن میں یہ کوئی فقط سائیکل والا ہی تو نہ تھا، اس کی شہرت ذرا بڑے ہوتے ہوئے بچوں میں خوب تھی اور اس کی وجہ کرائے کی سائیکلیں تھیں۔ ہم نے تو کبھی کرائے کی سائیکلوں کا شوق نہیں کیا، البتہ گلی کوچوں میں بُہتیرے لڑکے کرائے کی سائیکلیں دوڑاتے پھرتے ضرور دیکھے چھٹیوں، بارشوں یا اور کسی متوقع اور غیر متوقع تعطیلات میں اس کا زور پکڑ جاتا۔ یہ زنگ آلود اور کند رنگوں کی سائیکلیں دور ہی سے پہچان لی جاتی تھیں کہ یہ کرائے کی سائیکل ہے اور اکثر ایسے بچوں کی سواری ہوا کرتی تھیں کہ جو بوجوہ ذاتی بائی سائیکل سے محروم ہوتے تھے۔ ایسے میں لامحالہ اس گھنٹے دوگھنٹے کے لیے ملنے والی سائیکل پر ان کے جوش اور جذبے کا اندازہ آپ بہ خوبی لگا ہی سکتے ہیں۔ تیز تیز سائیکل چلاتے ہوئے ان کی یہ ’ہو ہا‘ بھی گویا ایک ثبوت ہوتی تھی کہ جو گلی محلے کے دیگر بچوں کو ان کی جانب متوجہ کرتی تھی اور ساتھ ہی انھیں پہلی نظر ہی میں خبر ہو جاتی کہ یہ فلاں فلاں، یا فلانی گلی کا لڑکا ہے اور کرائے کی سائیکل پر ساری دھما چوکڑی کر رہا ہے۔
سو 2022ءمیں اپنے بھانجے کی سائیکل کی مرمت کرانے کے انتظار کا یہ آدھا گھنٹا ہماری انھی یادوں میں کٹ گیا۔ پھر موقع دیکھ کر ہم نے ماما کو چھیڑا، کہیے بھئی، کرائے کی سائیکلیں کب ختم کیں؟ تو وہ پہلے سمجھے کہ ہم شاید بڑوں کی کرائے کی سائیکلوں کی بات کر رہے ہیں، تو جھٹ بولے کہ وہ توجب ’ایم کیو ایم‘ ’آگئی، تو بس پھر ختم کر دی تھی، بہت زمانہ ہوگیا۔ ہم نے عرض کیا ارے نہیں، ابھی ہمارے ہی بچپنے تک تو آپ کی سائیکلیں بہت چلتی تھیں، تو پھر انھیں سمجھ میں آئی کہ ہماری مراد بچوں کی سائیکلوں سے ہے۔ تو گویا ہوئے کہ ہاں، وہ بھی بہت دن ہوگئے۔ ہم نے ٹٹولا کہ آخری کیا کرایہ رہا تھا فی گھنٹے کا۔ تو بس انھوں نے ٹالتے ہوئے بتایا کہ دس روپے۔ پھر کام کرتے ہوئے بتانے لگے کہ وہ فلاں جگہ سے مضبوط جاپانی سائیکلیں لاتے تھے اور فلاں جگہ پر کھڑی ہوتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر ہماری سائیکل کی باری آئی۔ ”ماما“ نے دو چار اوزار چلائے اور چد منٹ میں معمولی سی مزدوری پر سائیکل کی ’چین‘ ٹھیک کر دی۔ ہم نے ”ماما“ کی دکان کے بورڈ کو اپنے موبائل میں محفوظ کیا
ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے۔۔۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلے تلک ”ماما“ کی دکان کی شہرت اریب قریب کے تمام محلوں میں بچے بچے تک تھی۔ ہماری کالونی کی گلی جو ایک سرے پر ’شکیل ہوٹل‘ والی گلی کہلاتی تھی، دوسرے سرے پر یہ ”ماما سائیکل والی گلی“ کی نسبت سے پہچانی جاتی۔ لیکن آر پار یہ گلی کہاں تک شکیل ہوٹل والی گلی رہتی اور کس حد کے بعد سے ”ماما سائیکل والی گلی“ ہوجاتی اس کی کچھ خبر نہ تھی۔ اب بھی پرانے یار کوئی پتا بتانے کو بے دھڑک یہ پرانی نسبتیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن صاحب، اب وہ بات کہاں۔۔۔ ’ماما‘ کی دکان بھی اب اس گلی کے نکڑ سے چند قدم آگے چلی گئی ہے۔ اور اب وہ زیادہ تر موٹر سائیکلوں کے کام میں مشغول رہتے ہیں۔ علاقہ گنجان ہوا اور شوقیہ سائیکل چلانے والے بچے بھی شاید اب کم ہوگئے۔ ’ماما سائیکل والا‘ آج بھی موجود ہے۔ اِس کی شہرت، عروج اور دور تک کی شناسائی اب ماضی کی ایک یاد سی بنتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایسا ماضی جو ’بلیک ہول‘ کی طرح ہمارے حال کو نگلتا چلا جا رہا ہے۔
Categories