سمے وار (خصوصی رپورٹ)
معروف کالم نگار اور ٹی وی میزبان جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں روایتی انداز میں مشورے دیتے ہوئے سیکولر طرز فکر کے مطابق مذہب کو ذاتی مسئلہ بنانے کا پرچار کیا اور ساتھ ہی مساجد کو سرکاری کنٹرول میں دینے اور مسجد سے عقائد کی تبلیغ کی مخالفت کردی۔
جاوید چوہدری کے 13 دسمبر 2022 کو روزنامہ ایکسپریس میں “سنگاپور کی مثال” کے عنوان سے شایع ہونے والے کالم میں جہاں بہت سے مفید مشورے دیے گئے کہ جیسے مذہب کے نام پر نفرت پر پابندی اور سڑکیں بند کرنے وغیرہ۔ وہیں انھوں نے مسجد کے خطبے تک سرکاری کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔ یہاں ان کو آزادی اظہار دکھائی نہ دی۔
کیا وہ میڈیا کو سرکاری کنٹرول میں دینے کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں کیوں کہ دنیا کا سکہ رائج الوقت یہی ہے کہ آزادی کی دھماچوکڑی پھیلانے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جائے اور مذہب کو مکروہ اور بہت بری چیز بنا کر پیش کیا جائے اور اسے فقط مرضی اور بہت واجبی سی اہمیت دے دی جائے۔ جاوید چوہدری بھی اسی پر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سرمایہ کاری کے لیے پیسہ لانے کے حوالے سے مشورہ دیتے ہیں کہ “کسی سے رقم کے بارے میں نہ پوچھیں‘ یہ یاد رکھیں سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے‘ آپ اس پر توجہ دیں‘ کراچی سے ایران کے بارڈر تک ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کوسٹل لائین ہے۔ آپ یہ یورپی ملکوں کو دے دیں‘ یہ یہاں ٹیکس فری یورپی شہر بنائیں اور چلائیں‘ حکومت راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے”
اس سے بہ خوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ جیسے ان کا کوئی نظریہ اور فکر نہیں ہے اور وہ کمرشل بنیادوں پر کبھی کسی کے گن گاتے ہیں اور کبھی کسی کے نقطہ نظر کو بڑھاوا دے رہے ہوتے ہیں۔
Like
Comment