Categories
ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف جماعت اسلامی سعد احمد سندھ سیاست کراچی

دوڑو! زمانہ چال “حافظ” کی چل گیا!

تحریر: سعد احمد
جی ہاں، آپ نے بالکل درست سمجھا، کراچی کی موجودہ سیاست میں روایتی حریف “متحدہ قومی موومنٹ” کے بحران اور انتشار سے جس طرح حافظ نعیم الرحمن اپنی جگہ بنا رہے ہیں، وہ قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی۔ انھوں نے جس طرح سے مختلف شعبوں میں کراچی والوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے، اس وقت “متحدہ” (بہادر آباد) یا اور کوئی فعال تنظیم اس کا 10 فی صد بھی نہیں کر پارہی۔ عمران خان صرف ممی ڈیڈی اور سیاسی فکر سے نابلد حلقوں اور کبھی ووٹ نہ دینے والوں کے ووٹ مل جانے پر خوش بیٹھے ہیں، کراچی میں ان کی تنظیم ایک مذاق سے زیادہ نہیں، جس میں متذکرہ بالا برگر اور زندگی سے سدا کے مطمئن عناصر کے ساتھ ٹھیٹھ پشتون حمایت ملی ہوئی ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اب رہ گیا متحدہ کا بہادرآباد گروپ تو اس کا زور صرف اپنی قوم اور اپنے ہی دھڑوں سے دھینگا مشتی میں گزر رہا ہے۔ متحدہ جیسی تبت سینٹر سے مزار قائد تک بھرنے والی جماعت ایک کارنر میٹنگ کی طرح نشتر پارک سے بھی انصاف نہ کرپائے اور اس پر خواجہ اظہار الحسن جماعت اسلامی کے کام پر سستا طنز کریں تو اس سے زیادہ جماعت اسلامی کو اور کیا چاہیے۔ کچھ نہیں بچا تو اپنے قوم کے نوجوانوں کے یوم ثقافت پر ٹوٹ پڑے۔ جیسے خشک پتے ہوتے ہیں ہوا کے دوش پر، بلکہ شاید اس سے بھی بدتر۔ انھیں خود پر بھروسا ہی نہیں رہا۔ یقین نہیں آتا کہ یہ 30 تیس سال کے سیاسی کارکنان ہیں یا تحریک انصاف کے سستے اور ناتجربے کار ارکان، وہ جو پورا شہر اور پوری قوم کی قیادت کرتے تھے، آج خود ہی کو دست یاب نہیں ہیں۔ دوسری طرف دیکھیے تو جماعت اسلامی اپنے فلاحی ادارے “الخدمت” کے ساتھ حافظ نعیم کو جوڑ کر خوب دبا کر اپنا کام کر رہی ہے۔ مختلف تعلیمی نجی اداروں میں ان کے پروگرام زور شور سے جاری وساری ہیں۔ 24 دسمبر کو “آئی او بی ایم” میں ان کا ایک پروگرام ہونے والا ہے، حافظ نعیم نمبر پر نمبر بنائے جا رہے ہیں اور ان کی خوش قسمتی ہے کہ لولی لنگڑی بہادرآبادی ایم کیو ایم ڈھنگ سے طنز کرنے کے لائق بھی نہیں رہی ہے۔ ہاتھ پائوں بندھی ایم کیو ایم (بہادر آباد) نشتر پارک میں لٹکی پڑی ہے اور حقیقی معنوں میں اسے نہیں پتا کہ اس کا مستقبل کتنا اور کہاں تک ہے۔ بہرحال حافظ نعیم کے لیے میدان صاف ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، کم سے کم وہ بہادرآبادیوں سے کئی گنا آگے ضرور جانے والے ہیں، کیوں کہ وہ ٹکا کر اپنی مہم چلا رہے ہیں اور ماضی میں ریکارڈ قائم کرنے والے آج اپنے آپ میں اجنبی بن چکے ہیں، انھیں جتنی آزادی ہے، یہ اس آزادی کا بھی استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *