تحریر: رضوان طاہر مبین
پچھلی صدی کی آخری دہائی کی وہ رات آج بھی یادداشت میں خوب روشن ہے، وہ رات، جو ہمارے اسکول کے پہلے امتحان سے قبل کی آخری رات تھی، اگلے دن کی دوپہر کو ہمارے شش ماہی امتحانات شروع ہونے تھے۔ تب ہم اپنی امی کے ساتھ اپنے گلی نمبر چھے والے گھر سے آٹھویں لائن میں واقع مشہور زمانہ ’مہتاب اسٹیشنری‘ گئے تھے، جہاں سے ہمارے اور ہماری بہن کے لیے یہ امتحانی بورڈ خریدا گیا تھا
شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ بھائی مہتاب کی دکان سے برسوں قبل لیا گیا ہمارا یہ امتحانی بورڈ پھر اسکول کے گیارہ برس تک بلاتعطل ہمارے ساتھ رہا ہے اور کم از کم اسکول کے 23 امتحانات میں کے 150 مضطرب دنوں میں ہمارا ساتھی اور ہم سفر رہا ہے۔
’کے جی ٹو‘ سے ون کلاس تک ’سوال نامہ‘ ہی پُر کر کے واپس دینا ہوتا تھا، وہ ’سوال نامہ‘ اس بورڈ کی ناپ سے کچھ جیتا ہوا ہوتا تھا اور نتیجتاً اس پرچے کا تھوڑا سا حصہ امتحانی بورڈ سے باہر نکل کر ذرا سا مڑ جایا کرتا تھا پھر کلاس ٹو سے اسکول کے ضابطے کے مطابق جوابات امتحانی کاپی میں لکھے جانے لگے، تب سے ہر امتحانی پرچے یا ’سوال نامے‘ کو سنھبال کر گھر لانا اور پھر سینت سینت کر رکھنا، یہ سب سلسلہ رہا۔ وہ امتحانی پیپر جو امتحان کے بعد سارے طالب علم ”بے دردی“ سے تہہ کر کے اپنی اپنی جیبوں یا پینسل بکس میں رکھ لیتے تھے، وہ ہم سیدھے اور بغیر کسی تہہ کے پورے احترام سے محفوظ رکھتے تھے، ہمیں یہ تہہ در تہہ کر کے رکھا بہت ناگوار لگتا تھا، ہم نے زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا، بلکہ ہم ہر روز پرچا مکمل ہونے کے بعد یہ ’سوال نامہ‘ دُوہرا کرتے اور پھر اسے خفیف سی تیسری تہہ دے کر پینسل کی ڈبیا کے اوپر موڑ کر امتحانی بورڈ کی ’چٹکی‘ میں اٹکا دیا کرتے۔ ہمارے دیکھا دیکھی کچھ دیگر بچے بھی پھر ایسا کرنے لگے تھے۔ ہم نے تو یہ سارے کے سارے امتحانی پرچے ’فضول‘ میں سنبھال سنبھال کر رکھے تھے، جو نہ جانے کیسے چھٹی کلاس میں ہمارے گھر بدلنے کے دوران محفوظ نہ رہ سکے، اس کا ہمیں قلبی افسوس رہا اور ہمیں بالکل بھی اندازہ بھی نہ ہوسکا کہ یہ سب کیوں کر کھو گئے! لیکن اس کے بعد سے یونیورسٹی تک کے تمام ’سوال نامے‘ ہم نے خوب محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
بہرحال، یہ امتحانی بورڈ ہمارے بچپن کی بہت ساری یادیں سمیٹے ہوئے ہے، اُس وقت امتحانی کمرے کے ذہنی دباﺅ اور پریشانی وامید کے ملے جلے جذبات امتحانی پرچا حل کرنے کی کوششیں، صحیح وغلط کے واہمے اور پیپر مکمل ہونے کے بعد نمبروں کا حساب کتاب کرنا، فیل ہو جانے کے خوف سمیت بہت کچھ۔ یہاں تک کہ ہم نے تو بہت سے مشکل الفاظ، کچھ فارمولے یا چند ایک سطر کے جوابات پینسل سے اس پر لکھ کر امتحان میں ”مدد“ بھی لی! اس کتھئی گتے یا ’ہارڈ بورڈ‘ پر پینسل سے لکھنے سے اتنا واضح نہیں ہوتا تھا اور ایک مخصوص زاویے پر ترچھا کرنے سے یہ تحریر چمکتی ہوئی دکھائی دے جاتی تھی۔ ہم نے کئی مرتبہ ’مجبوری‘ میں یہ حرکت کی، کیوں کہ بہت سی چیزیں ہمیں ساری ساری رات یاد کرنے کے باوجود ذہن میں نہیں بیٹھتی تھیں یہ بات درست ہے، ہم نے ہمیشہ دل لگا کر دھیان دے دے کر اور بہت محنت سے پڑھنے کی کوشش کی ہے، مگر کبھی اوسط درجے سے آگے نہیں بڑھ پائے جب کہ اساتذہ اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ جو پڑھنے میں پیچھے ہے، اس کا مسئلہ بس یہی ہے کہ وہ پڑھائی میں دھیان نہیں دے رہا۔ اب شاید کچھ اساتذہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ ساری ساری رات پڑھنے کے باوجود بھی صبح کو ٹیسٹ اچھا نہ دینے والے بھی بے قصور ہو سکتے ہیں۔
خیر، یہ امتحانی بورڈ سال میں ایک سے دو بار ہی ہمارے استعمال میں آتا تھا، لیکن اتنی امیدیں اور یادیں اپنے دامن میں چھپا کر رکھتا ہے جو کسی بھی طرح کم اہم نہیں کالج کے امتحانات میں ہمیں یاد نہیں آرہا کہ یہ بورڈ ہمارے استعمال میں رہا یا نہیں لیکن اسکول میں یہ ہمہ وقت ہمارے ساتھ رہا، امتحانات کے علاوہ بھی اس بورڈ میں ورقے لگا کر لکھنے کا شغل خوب رہا، بہت سے کورے صفحات اس میں لگے رہتے اسی بورڈ کی پشت پر سفید چاک سے انگریزی میں بڑا بڑا اپنا نام بھی لکھا ہوا تھا، جس کے نشانات اب بھی موجود ہیں ہمارا یہ بورڈ کئی برس بعد آج بھی بہتر اور قابل استعمال حالت میں موجود ہے اور کسی بچپن کے دوست کی طرح ہمارے ساتھ ہے۔ اگرچہ برسوں کی گَرد نے اس پر اثر ضرور ڈالا ہے۔اس کا سنہری چمکتا ہوا ’کلپ‘ نیم زنگ آلود ہو کر کورا سا ہو چکا ہے، لیکن ٹھیک کام کرتا ہے۔ ہماری الماری کے ایک کونے میں دبا ہوا یہ ’امتحانی بورڈ‘ گذشتہ دنوں سامنے آگیا اور ہم برسوں پرانے اِس ’دوست‘ سے مل کر ماضی میں پہنچ گئے۔ اس بورڈ کے سینے پر لگے ہوئے روشنائی کے بے شمار نشان، کئی ادھ مٹی تحریریں نہ جانے کتنے ادھورے خوابوں اور کتنی آسود اور نہ آسودہ خواہشات اور باتوں کے امین ہیں۔
Categories