تحریر :رضوان طاہر مبین
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے!
دہلی کالونی کی شمیم مسجد سے متصل ’خدیجہ مارکیٹ‘ میں موجود ایک سامنے کے رخ پر بغلی شٹر سے کھڑکی نما کھلی ہوئی یہ دکان اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہے کیوں کہ ۲۰ فروری ۲۰۲۳ءکی صبح ہمارے پرانے محلے کی مشہور و معروف ہستی بھائی راجا مسالے والے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے
اپنے جنم کے پچھتر برسوں سے اب تک ہماری دہلی کالونی کتنی ہی بدلی اور بگڑ گئی ہو، مگر کچھ نشانیاں ابھی باقی تھیں، جنھیں صرف دیکھ کر بھی بے چین زندگیوں میں گویا ایک قرار سا آجاتا تھا بھائی راجا ہماری کالونی کی ان ہی کچھ ہستیوں میں سے ایک تھے۔ کبھی گھر سے نکلتے بڑھتے، وہ بھی آتے جاتے دکھائی دے جاتے تھے، تو راستے کی ساری تھکن میں ایک تسکین کا سا احساس ہو جاتا تھا
ہماری امی کے ماموں اسلام الدین کہتے تھے کہ ’بھائی راجا آج کے دور کی ولی اللہ ہیں!‘ اصلی دہلی کالونی کا شاید ہی کوئی مکین ایسا ہوگا، جو دسیوں مرتبہ بھائی راجا کی دکان پر نہ گیا ہو کہنے کو وہ پرچون یا کریانہ کی دکان رکھتے تھے، لیکن دراصل یہ ’پنساری‘ کی دکان زیادہ تھی، کیوں عناب، منقے، کالا نمک اور ہینگ سے لے کر سرکے، عرق گلاب سے لے کر اچار مربے اور چٹنیوں اور انواع اقسام کی جڑی بوٹیوں کے ایسے چھوٹے چھوٹے لوازمات تک کہ جن کے نام بھی نئی نسل کے کان میں شاذ ونادر پڑتے ہوں گے، ہر کسی کی زبان پر جھٹ سے یہی آتا تھا کہ بھائی راجا کی دکان سے مل جائے گا یا پھر کالونی کے پرانے احمد اسٹور کی دوڑ ہوتی
ہمارے بڑوں کے مطابق بھائی راجا کی پیشہ وارانہ زندگی محلے کی قدیمی راشن شاپ ’قومی اسٹور‘ سے شروع ہوئی تھی، جس کے بعد پھر انھوں نے اپنی الگ دکان کی تھی ہم نے توہوش سنبھالتے ہی انھیں اسی دکان پر متحرک دیکھا اور سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس دکان کا تذکرہ بھائی راجا کے چاٹ مسالے کے توسط سے ہوا بھائی راجا یہ کچالو کا مسالا خود بناتے تھے اور یہ اتنا مقبول تھا کہ دیگر علاقوں کے لوگ بھی فرمائش کر کے یہ مسالا منگوایا کرتے تھے
چہرے پر ہمہ وقت سنجیدگی، پیشانی پر عمر سے زیادہ گہرے تفکر کی شکنیں نہایت سادہ سی شلوار قمیص میں، مختصر اور دبلے پتلے سے جثے، خمیدہ کمر، گردن جھکائے۔ ہمہ وقت گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہم سب کے بھائی راجا سادگی اور درویشی کا ایسا پیکر تھے کہ اب کیا بیان کیا جائے اگر پرانی زبان میں کہیے، تو انھوں نے ’بنیے‘ کا کام تو خوب کیا، لیکن ان کی دکان داری کا یہ عالم تھا کہ ان کی دکان پر کوئی چیز دست یاب نہیں ہوتی، تو جھٹ بتاتے ’بھائی شاکر کے یہاں سے لے لو، یا یہ کہ احمد اسٹور سے یا یوسف راشن والوں کی دکان سے مل جائے گا، میں بھی وہیں سے لیتا ہوں! اب بھلا بتائیے ایسی ”بے وقوفی“ یا قناعت کی تجارت آج کل بھال کون کرتا ہے، ہم جیسوں پر ایسے میں ایک عجیب کیفیت ہو جاتی اور ہم کہتے ”نہیں بھائی راجا، آپ کب لائیں گے، بتا دیجیے، ہم پھر آجائیں گے!“ اور پھر صرف اسی واسطے اگلے روز کا انتظار کرتے کہ نہیں، یہ چیز لینی تو بھائی راجا ہی سے ہے!
بھائی راجا سراپا خلوص تھے، اپنے گردوپیش میں وہ ایک اعتبار اور بھروسا تھے، سہار تھے وہ پرانے رواجوں کے اتنے اسیر تھے کہ آج تک اسٹیل کی بالٹی میں ہی دودھ وغیرہ لاتے اور اپنے سودا سلف کے واسطے بھی اکثر کپڑے کا تھیلا ہی استعمال کرتے اپنی دکان پر گاہکوں کے لیے بھی پلاسٹک کی تھیلی اس طرح استعمال کرتے تھے کہ شاید یہ پولی تھین پلاسٹک بیگ استعمال کرنا کوئی گناہ کا کام ہو دکان پر زیادہ تر اپنے سامان ہی کی بچی ہوئی تھیلیوں سے ’جگاڑ‘ کرتے اور اسی میں سودا باندھ دیتے تھے، پڑیوں پر ربڑ کے بہ جائے دھاگا باندھتے۔ آخری کچھ برسوں تک اپنی سائیکل ہی پر تھوک بازار جاکر اپنا سارا سامان لاتے تھے اور مختلف مسالا جات بناتے تھے، مگر ضعیفی اور پیرانہ سالی کے سبب رفتہ رفتہ سب کچھ کم ہوتا جا رہا تھا، لیکن اللہ نے ہمت دی کہ ان کی دکان غالباً آخر تک کھلتی رہی بس کمزوری کے سبب کبھی کبھی لاٹھی کا سہارا لینے لگے تھے۔
دو سال قبل ایک اہم مسئلے کی تحریری درخواست پر بھائی راجا کے دستخط لینے تک ہمیں بھی بھائی راجا کے اصلی نام کی کچھ خبر نہ تھی۔ وہ عبدالسلام شاہدرہ والوں کے بیٹے، جمیل الرحمن شاہدرہ والے کہلاتے تھے اب نہیں پتا کہ وہ کب اور کیسے ’راجا‘ ہوئے اور پھر ’بھائی راجا‘ کی عرفیت سے اتنے معروف ہوئے کہ ان کے اصلی نام کی کسی کو بھنک بھی نہ رہی اپنی سادگی اور درویشانہ شخصیت کے توسط سے کہیے تو بھائی راجا بلا شبہ پرانی دہلی کالونی والوں کے دلوں کے راجا تھے۔ کتنے ہی بچوں اور بڑوں کے طب یونانی کے ٹوٹکے اور حکیمی نسخے بھائی راجا کی دکان سے ملنے والے اجزا کے واسطے پورے ہوئے ہوں گے، سخت گرمیاں ہیں، تو گرمی دانوں کا پاﺅڈر بھی بھائی راجا کے ہاں دست یاب ہے، کاشکاری سفیدہ، کافور، سمندری جھاگ اور خدانخواستہ گھر میں چوہوں یا کھٹملوں کا وبال ہوگیا ہے، تب بھی بھائی راجا کا در کھٹکھٹائیں، وہ اپنی دکان سے کچھ نہ کچھ ضرور تجویز کر دیں گے اور بھی نہ جانے کون کون سی جڑی بوٹیاں اور اجزا
آپ ذرا تصور تو کیجیے کہ بھائی راجا کی یہ دکان بھی کیا عجب ’پنسار خانہ‘ تھا ایک ’دریچے بھر‘ کھلے ہوئے حصے سے دکان میں دیکھیے تو اندر کسی بہت پرانے وقتوں کا سا منظر نگاہوں کے سامنے ہوتا، بس ضرورت کے مطابق جلی ہوئی روشنی، دھیما سا پنکھا، ایک دیواری گھڑی آڑھی ترچھی ہو کر بس کسی طرح یوں آویزاں ہے کہ وقت بتاتی رہے، اکثر سامان پر گرد نہ بھی پڑی ہو، تب بھی وہ یہ ضرور بتا رہی ہے کہ اُس کا یہاں کا ساتھ برسوں پرانا ہے۔ خانے در خانے بہت سارے مرتبان، شیشے کی برنیاں اور بہت پرانے یک سان چوکور کنستر قطار اندرقطار لگے ہوئے ہیں دیکھنے والے دیکھتے، تو حیران ہوتے کہ باہر کوئی نشانی ہے نہ نشان، اور بھائی راجا ہیں کہ سیڑھی پر چڑھتے ہیں اور آنکھ بند کر کے ایک ڈبے میں ہاتھ ڈال کر مطلوبہ شے مٹھی بھر کر نکال لاتے ہیں اور پھر اسے پرانے دو پلڑے والے ترازو میں تولتے ہیں یعنی انھیں اپنے ہاتھ کی رکھی ہوئی چیزوں کی خوب خبر ہوتی اور پھر ان کے ہاں یہ تول زیادہ تر ماشہ، تولے اور چھٹانک اور پاﺅ کے حساب کتاب میں زیادہ ہوتی، پھر شاید کچھ گرام وغیرہ کا نظام بھی رائج ہوگیا تھا لیکن ان کی دکان پر یہی پڑیا دو پڑیا کا معاملہ ہوتا تھا البتہ پھر کچھ یونانی سربند دوائیں بھی ان کی دکان پر ملنے لگی تھیں
بھائی راجا کی دکان پر ’خاصے‘ کی ایک چیز ان کی دکان کے ارد گرد ٹنگی ہوئی لکڑی کی وہ باقاعدہ تختیاں تھیں، جن پر انھوں نے پختہ روشنائی سے دینی نصیحتیں وغیرہ درج کرائی ہوئی تھیں تاکہ ان کی دکان پر آنے والے ان سے مستفید ہوتے رہیں۔ دکان پر آنے والے گاہکوں کی جلد بازی ’بھائی راجا‘ کا لہجہ تُنک کر دیتی تھی اور بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے جلدی سودا طلب کرنے کی کوشش پر دو ٹوک اور مختصر سی بات کرنے والے بھائی راجا اچھا خاصا چڑ جاتے تاہم گاہک پہلے سے پوچھ کر یہ تسلی کرلیتا تھا کہ مطلوبہ چیز ان کے پاس موجود ہے کہ نہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اتنی دیر انتظار کے بعد جب باری آئے تو معلوم ہو کہ وہ چیز تو موجود ہی نہیں ہے۔ اور بات اگر چڑنے کی ہے تو محلے کے بعضے شرارتی بچوں سے انھیں باقاعدہ ایک نازیبا جملے سے چڑانے کی روایات بھی ہمارے کان میں پڑی ہیں
بہرحال، قصہ تمام شد
کئی نسلوں کو اپنا اسیر رکھنے والے ’بھائی راجا‘ بھی اب ہمارے ماضی کی ایک یاد بن کر رہ گئے۔ ایک ایسی یاد کہ جو ایک نہ ایک دن ہم سبھی کو بننا ہے لیکن یہ ہے کہ اب دنیا کا خالی پن بہت بڑھ سا گیا ہے، بھائی راجا کے دَم سے جانا جانے والا شمیم مسجد کی ’خدیجہ مارکیٹ‘ کا وہ گوشہ یوں کہیے کہ اب اجڑ سا گیا ہے دہلی کالونی والوں کا یہ دکھ دُہرا ہے کہ بھائی راجا جیسے اللہ کے بندے اب ان کے درمیان سے اٹھ گئے ہیں، ہماری فضا میں جیسے ’اوزون‘ گیس کی ایک تہہ سورج کی مضر شعاﺅں کو ہم تک پہنچنے سے روکتی ہے، ایسے ہی ایک تہہ ہمارے یہ سارے بزرگ بھی ہیں، جو برابر رخصت ہو رہے ہیں۔ ہمارے پرانے محلے کے بھائی راجا کے جیون کا راج ضرور ختم ہوگیا، لیکن ہمارے دلوں میں ’بھائی راجا‘ کا راج ختم نہیں ہوگا، کم ازکم تب تک، کہ جب تک ہم موجود ہیں!