Categories
اردوادب تہذیب وثقافت عنبرین حسیب عنبر

آصف فرخی: میرا بھائی، میرا دوست

(دوسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر
اب گاہے گاہے کسی کام سے آصف صاحب سے فون پر بات بھی ہونے لگی۔ ہماری عادت ہے کہ ہم کسی کو بھی کال کریں تو سب سے پہلے اپنا نام بتاتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں۔ ابتدا میں ہم نام بتاتے تو آصف صاحب جوابا” کہتے “جی کیسی ہیں آپ ؟” اور گفتگو ہو جاتی۔ ہم لوگوں کی گفتگو ہمیشہ خوش گوار ہوتی مگر کبھی بھی بہت طویل نہیں ہوئی۔ لیکن ایک دن جب ہم نے کال کر کے حسب عادت اپنا نام بتایا تو آصف صاحب نے کہا ” جی اب میں نے آپ کا نمبر اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا ہے آئندہ آپ کو یہ تکلیف نہیں کرنی پڑے گی۔” ہم نے شکریہ ادا کیا مگر ہم اپنی عادت سے مجبور جب بھی کال کرتے اپنا نام بتاتے اور وہ ہر مرتبہ دہراتے کہ “جی آپ کا نمبر محفوظ ہے، مجھے علم ہے کہ کال پر آپ ہیں”۔ مگر ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ہماری یہ حرکت آصف صاحب کو ناگوار گزرتی ہے۔ ایک دن آصف صاحب نے جھنجھلا کر کہا “دیکھیے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ آپ کا نمبر اب میں محفوظ کر چکا تو پھر آپ ہر مرتبہ اپنا نام کیوں بتاتی ہیں؟”. ہم سٹپٹا گئے۔ اب یہ کہنے کی تو ہماری ہمت ہوئی نہیں کہ ہم نام اس لیے بتاتے ہیں کہ ہماری ریڈنگ بتاتی تھی کہ آصف صاحب ہم سے کبھی بے حد بے تکلفی اور اپنائیت سے ملتے ہیں اور کبھی بالکل پتھرائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو خدا جانے آج کس موڈ میں ہوں اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر بتا دیتے ہیں، یہ کہہ نہیں سکتے تھے اس لیے یہ کہہ دیا کہ ” اصل میں کراچی شہر میں نمبر محفوظ کرنے والا موبائل محفوظ نہیں رہتا اس لیے احتیاطاً بتا دیتے ہیں”.

مگر انھیں یہ جواز پسند نہیں آیا، ان کا لہجہ سخت رہا، وہ بولے: ” لگتا ہے آپ بات سمجھتی نہیں ہیں، آپ کو بات سمجھانی پڑتی ہے۔ جب میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کا نمبر محفوظ کر لیا تو اس کا مطلب ہے کہ اب آپ میرے حلقہ احباب میں شامل ہو چکی ہیں۔ پھر آپ اجنبی بننے پر کیوں مصر ہیں؟”

” ہم معذرت خواہ ہیں۔” ہم نے شرمندگی سے کہا تاہم دل خوش ہوگیا کہ وہ ہمیں اپنے احباب میں گرداننے لگے ہیں۔

کچھ عرصہ خیر سے گزرا مگر پھر کافی عرصے بعد آصف صاحب کو کسی کام سے کال کی تو حسب عادت اپنا نام بول پڑے۔ ” ٹھیک ہے، میں کال بند کرتا ہوں پھر آپ کا نمبر ڈیلیٹ کرتا ہوں۔ آپ دوبارا کال کیجیے گا اور اپنا شوق پورا کر لیجیے گا۔” ہم سر پیٹ کر رہ گئے۔ ہم نے معذرت کی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ مگر آصف صاحب نے کال بند کر دی۔ ہم ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ہوا کیا ہے کہ ان کی کال آ گئی۔ “میں آصف اسلم بول رہا ہوں۔ کیسی ہیں آپ ؟ ” انھوں نے جیسے چبا چبا کر یہ جملے ادا کیے ہمیں ہنسی تو بہت آئی مگر ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اس وقت ہنسنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے اس لیے آئندہ کے لیے توبہ کر لی اور یقین دلایا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہمیں احساس ہوا کہ آصف صاحب بہت سوچ سمجھ کر کسی کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کرتے ہیں اور پھر اسے اوون کرتے ہیں۔ اب ہم آصف صاحب کو کچھ کچھ جان چکے تھے اور جو انکشافات ہوئے وہ بڑے دل چسپ تھے، مثلاً یہ کہ وہ کبھی بھی پڑھاکو نہیں رہے۔ انھیں بھی غیر نصابی کتابیں زیادہ کھنیچتی تھیں۔ یہ جان کر مزید دل خوش ہوا کہ ہم دونوں کا طریقہء واردات بھی ایک ہی تھا یعنی نصاب کی کتاب میں غیر نصابی کتاب رکھ کر پڑھنا تاکہ گھر والے مخل نہ ہوں۔ ایک بات انھوں نے کئی مرتبہ دہرائی کہ ” مجھے سحر انکل سے بہت محبت ہے۔ آپ کو معلوم ہے جب میں نے پہلا افسانہ لکھا تھا تو اپنے والد کو دکھانے کے بجائے آپ کے والد کو جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں جا کر دکھایا تھا اور وہ اتنے خوش ہوئے اور کہا کہ آپ بہت زبردست لکھ رہے ہیں۔”

آصف صاحب کال ہمیشہ کسی کام یعنی پروگرام کے سلسلے میں کرتے تھے، بلا ضرورت ان کی کال ہمارے پاس کبھی نہیں آئی۔ البتہ نیو ایئر پر ان کا میسج ضرور آتا تھا جس میں صرف اتنا لکھا ہوتا تھا

Happy New Year

Asif

ہم آصف فرخی صاحب کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے۔ ان کی تنقید کسی دل چسپ عام سی بات سے شروع ہوتی، پڑھنے میں بہت سادہ زبان لگتی مگر بات گہری اور غیر روایتی ہوتی چلی جاتی۔ وہ بات ہمیشہ کسی نئے زاویے سے کرتے کیوں کہ زندگی کو دیکھنے کا ان کا زاویہ ہی مختلف تھا۔ ترجمہ، افسانہ یہاں تک کہ ہمیں تو ان کی شاعری بھی پسند تھی اور ہم نے ان سے کئی مرتبہ دریافت بھی کیا کہ شاعری کیوں ترک کر دی۔ وہ کہتے مجھے لگنے لگا کہ میں نثر میں کام کروں تو زیادہ بہتر ہے۔ “دنیا زاد” ہم نہایت شوق سے پڑھتے تھے۔ “شہرزاد” سے ہمیشہ معیاری کتب شائع ہوتیں تو وہ بھی زیرِ مطالعہ رہتی تھیں۔ مختصر یہ کہ آصف فرخی صاحب بلاشبہ ایک نابغہ تھے۔

اسی لیے جب ہم نے “اسالیب” کا اجرا کیا تو آصف صاحب سے بھی قلمی تعاون کی درخواست کی۔ وہ نہایت خوش دلی سے پہلی بار میں ہی کہنے لگے ” میں ضرور بھیجوں گا۔”

ہمارے ذہن میں آصف صاحب کا تصور یہ تھا کہ وہ اتنی آسانی سے لکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہوں گے۔ اب انھوں نے جو جھٹ سے حامی بھر لی تو ہم شک میں پڑ گئے کہ شاید ٹالنے کو کہہ دیا ہے۔ اس لیے کچھ دن بعد پھر کال کی۔ ” آپ کو واقعی بات واضح طور پر سمجھانی پڑتی ہے، کمال ہے۔ میں نے کہا کہ میں لکھ کر بھیجوں گا تو اس کا مطلب سمجھ لیجیے کہ میں ضرور لکھ کر بھیجوں گا۔ میں ہر پرچے میں نہیں چھپتا کچھ مخصوص پرچوں میں چھپنے میں ذہنی سکون محسوس کرتا ہوں۔ آپ کا پرچہ بہت اچھا ہے، آپ محنت سے نکال رہی ہیں اور مجھے آپ کا پرچہ پسند ہے اس لیے ضرور بھیجوں گا۔” ہم نے کال بند کر دی مگر یقین تب تک نہیں آیا جب تک مضمون مل نہیں گیا۔ اسالیب کے قلمی تعاون کے لیے بسا اوقات ہمیں کچھ شخصیات کو دو، تین بار یاددہانی کرانی پڑتی مگر آصف صاحب جو وقت دیتے اس سے ایک دو دن پہلے ہی ان کی تحریر ہمیں موصول ہو جاتی۔ ہمیں انھیں کبھی یاددہانی نہیں کرانی پڑی۔ اسی طرح اسالیب کی اشاعت کے دوران ایک دو شخصیات نے اپنے یا دوسروں کے مقام پر اعتراض کیا مگر آصف صاحب کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ پرچہ شائع ہونے پر ہم انھیں اسالیب بھیج دیتے وہ رسید دے دیتے۔ ایک مرتبہ خدا جانے ہمارے دل میں کیا آئی کہ ہم جو محسوس کرتے تھے وہ ہم نے آصف صاحب سے کہہ دیا ” آصف صاحب ہم آپ کو “اسالیب” اعزازی طور پر بھیجتے ہیں مگر آپ ہمیں ” دنیا زاد” نہیں بھیجتے۔” وہ مسکرائے اور بولے ” جی بالکل! کیوں کہ میں اسالیب کے قلمی معاونین میں شامل ہوں جب کہ آپ دنیا زاد کے لیے کبھی کچھ نہیں بھیجتیں۔” ہم لاجواب ہو گئے مگر چاہنے کے باوجود یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ آپ نے کبھی کہا ہی نہیں۔ حالاں کہ کافی عرصے بعد جب ہم نے اپنے والد صاحب کو یہ بات بتائی تو انھوں نے کہا ” یہ دعوت دینا نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ اب وہ تمہیں دعوت نامہ چھاپ کر تھوڑی بھیجیں گے کہ پلیز دنیا زاد کے لیے کچھ بھیجیے۔” مگر ہمارے لیے یہ کافی نہیں تھا، ہمارا خیال تھا کہ انھیں واضح طور پر کہنا چاہیے۔ ہماری ابتدا سے عادت ہے کہ جب تک کسی پرچے کا مدیر ہمیں کچھ بھیجنے کے لیے نہیں کہتا ہم اس پرچے کے لیے اپنی تحریر کبھی نہیں بھیجتے کیوں ہمیں یہ بنا دعوت کسی تقریب میں شریک ہو جانے والی حرکت لگتی ہے۔ اس لیے ہماری کوئی تحریر دنیا زاد میں کبھی شائع نہیں ہوئی۔

بہرحال ایک طویل عرصے کی گفتگو اور ملاقاتوں سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ آصف فرخی صاحب ایک بھرے پرے انسان ہیں جسے کسی قسم کا کوئی کمپلیکس ہی نہیں ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ جب ہم سے ملتے ہیں تو اپنی زبان سے خود کو بہت مختلف، شہرت سے لاتعلق، با اصول اور بے نیاز ظاہر کرتے ہیں مگر جب ان کو کچھ جاننے کا موقع ملا تو اکثریت اس کے برخلاف نکلی۔ ایسے لوگوں کو کوئی جھوٹے منہ بھی بلا لے تو پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی سب کو شہرت کے پیچھے دوڑتے ہی دیکھا مگر آصف صاحب کا معاملہ کچھ اور تھا۔ وہ شہرت سے واقعی بے نیاز تھے۔ ایک مرتبہ ہم ریڈیو پاکستان پر محمد حسین آزاد پر پروگرام کر رہے تھے۔ پروگرام اور آئیڈیا بہت پیاری شخصیت ربیعہ اکرم کا تھا ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم پروگرام کے شرکاء آصف فرخی صاحب، ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب اور کسی ایک شخصیت کو اور لائن اپ کر لیں۔ اب ہم نے جب آصف صاحب سے رابطہ کیا تو پہلے تو یہ کہہ کر پہلو تہی کی کوشش کی کہ ” محمد حسین آزاد پر تو ابا کو بلائیے۔ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟” ہم نے کہا کہ بے شک اسلم صاحب تو اتھارٹی ہیں مگر پروگرام کا آئیڈیا آپ کی نسل کے ساتھ تبادلہء خیال کا ہے۔” اب ان کا دوسرا اعتراض تھا ” آپ کا تیس منٹ کا پروگرام ہے۔ اس میں تین شرکا اور ایک میزبان آپ یعنی چار۔ موضوع محمد حسین آزاد۔ اس صورت حال میں ایک فرد کے پاس بات کرنے کے لیے کتنے منٹ ہوں گے؟ میں آپ کی مشکل آسان کرتا ہوں آپ ان دو بلا لیجیے اور میرا وقت ان دو میں برابر تقسیم کر دیجیے گا۔ کیوں کہ بات کا موقع ہو تو انسان بات کرے صرف نام شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اتنا تو آپ مجھے جانتی ہیں۔” وہ درست کہہ رہے تھے واقعی اتنا تو ہم انھیں جان چکے تھے کیوں کہ ایسا کئی مرتبہ ہو چکا تھا اور وہ ہمیشہ بے نیاز نظر آئے تھے۔ لہٰذا ہم خاموش ہو گئے۔ ربیعہ کو صورت حال بتائی تو انھوں نے کہا انھی دو شرکا کو بلا کر پروگرام کر لیتے ہیں۔ یوں ہم آصف صاحب کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اس پروگرام میں شرکت کریں۔

یہاں تک تو آصف صاحب سے تعلقات ویسے ہی چل رہے تھے جیسے کہ عموماً تخلیق کاروں کے دوستانہ تعلقات ہوا کرتے ہیں۔ مگر پھر اچانک ہمارے گھرانے پر ایک افتاد آ پڑی اور اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ آصف صاحب ہماری گڈ بک میں کیوں اور کیسے آ گئے تھے کیوں کہ اس افتاد میں ہم نے انھیں پوری طرح جانا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *