تحریر: ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر
آپ عنبرین ہیں نا؟” ہم نے اس سوال پر چونک کر نظریں اٹھائیں تو ایک خوش شکل آدمی کو اپنی جانب دیکھتے پایا۔ سبز آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی، چہرہ سپاٹ اور نظریں مسلسل ہم پر جمی ہوئی تھیں۔ ہمیں محسوس ہوا ہم نے انھیں دیکھا ہوا ہے مگر یاد نہیں آیا۔” جی ” ہم بس اتنا ہی کہہ کر چپ ہو گئے۔ ” میں آصف اسلم ہوں۔ آپ کو سحر انکل کے ساتھ دیکھا تو سمجھ گیا آپ عنبرین ہیں۔ سوچا سلام دعا کر لوں۔ اچھا خدا حافظ”۔ ہمیں مزید کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہماری مخالف سمت میں چل پڑے۔ ہم ہکا بکا سے کھڑے رہ گئے۔ “ہمممم تو یہ ہیں آصف اسلم۔ جتنا تیز بولتے ہیں اتنا ہی تیز چلتے ہیں۔ یہ شخص لگتا ہے کچھ زیادہ ہی عجلت میں ہے۔” ہم نے منہ بنا کر دل میں سوچا۔ “آصف اسلم”! اس نام سے ہم بچپن سے چڑتے آئے ہیں۔ اور اس چڑ میں تین دن پہلے ہی مزید اضافہ بھی ہو گیا تھا جس کا تمام تر کریڈٹ ہماری دانست میں موصوف کو جاتا تھا۔ مگر وہ تو آج ایسے ملے جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ یہ انسان اس شبیہ سے مختلف کیوں لگا جو شبیہ بچپن سے ہمارے ذہن و دل میں تھی۔ ہم ابھی ان باتوں پر غور کر ہی رہے تھے کہ والد صاحب نے ہمیں پکارا اور چلنے کا اشارا کیا۔ ہم ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے۔ کار آگے کی طرف اور ہمارا ذہن پیچھے کی طرف دوڑ رہا تھا۔
ہم بچپن سے اپنے گھر میں بڑے ذہین و فطین مانے جاتے تھے مگر والدین کو گلہ تھا کہ ہم پڑھائی میں اتنے سنجیدہ نہیں ہیں جتنے ذہین ہیں۔ اس لیے ہمیں بار بار سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ ہمیں سنجیدگی سے پڑھائی پر توجہ دینے چاہیے، ذہین بچے عام بچوں کی طرح وقت ضائع نہیں کرتے اور ایسے ہر لیکچر میں والد صاحب ایک نام آصف ضرور لیا کرتے تھے۔ انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ موصوف ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کے فرزند ارجمند ہیں اور بلا کے ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ نہایت کم عمری ( والد صاحب اس وقت بتاتے تھے کہ پاکستان کے سب سے کم عمر) میں میٹرک کرنے والے لڑکے تھے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کر کے آئے تھے۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے والد کے دل کے بڑے قریب تھے بلکہ والد صاحب صاف کہتے تھے کہ میں آصف سے اس لیے محبت کرتا ہوں۔۔۔اس کے آگے خوبیوں کی ایک طویل فہرست ان کے پاس تھی۔ لہٰذا وہ ہمیں بار بار آصف نامی انسان کی مثال دیتے۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی سے مرعوب ہوتے ہی نہیں اس لیے مرعوب تو کیا خاک ہوتے، الٹا اس نام سے چڑ سی ہو گئی۔ ہم اکثر اپنے آپ سے کہتے “ارے بھئی ذہین ہوں گے تو اپنے گھر کے ہوں گے ہماری زندگی کیوں مشکل میں ڈال رکھی ہے”۔ انسان سکون سے نہ غیر نصابی کتابیں پڑھ سکتا ہے نہ فلم دیکھ سکتا ہے! کہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو ہر جگہ یہ ظالم سماج کی طرح آن موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں خدا جانے کیوں ایسے پڑھاکو ٹائپ لوگوں سے سخت کوفت ہوتی ہے، اور ہم انھیں ایسا ہی سمجھتے تھے۔ سو ہمیں اس نام سے ہی کوفت ہونے لگی۔
وقت گزر گیا۔ کچھ بڑے ہو کر اسلم صاحب، ان کی بیگم تاج آنٹی سے ملاقات ہوئی تو دل خوش ہوگیا۔ سبحان اللّٰہ کیا نفیس اور خاندانی لوگ محسوس ہوئے اور آنٹی تو سراپا محبت ہی محبت لگیں لہٰذا ان سے بے تکلفی بھی ہو گئی۔ تاہم آصف صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ وہ ہمیں کہیں نظر آتے۔
اسلم صاحب کا ذکر اکثر ہمارے گھر میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا۔ اسلم فرخی صاحب ہماری والدہ کے پسندیدہ استاد اور والد کے محترم دوستوں میں سے تھے اس لیے وہ ہمارے گھر کا کوئی نہایت محترم اور معتبر فرد ہی محسوس ہوتے تھے۔ اسلم فرخی صاحب اور ہمارے والد کے کمرے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں ساتھ ساتھ تھے اور دوستی اتنی تھی کہ روز اسلم صاحب ایک رقعہ والد صاحب کو بھیجا کرتے تھے۔ والد صاحب بتاتے کہ ان میں سادگی بے انتہا ہے اور کوئی دکھاوا نہیں۔ کوئی ان کے کمرے میں ہوتا تو والد صاحب کے کمرے میں آ کر اپنا گاؤن بچھا کر نماز پڑھ لیتے۔ ہمیں اسلم صاحب سے ایک عجیب عقیدت اور انسیت سی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے ہم نے آصف نامی انسان کو اس گھرانے سے الگ رکھا ہوا تھا۔
غالباً 2000ء کی بات ہے ہم نوائے وقت کے ادبی صفحے میں لکھا کرتے تھے۔ یہ سب سجاد میر صاحب کی شفقت اور راشد نور صاحب کی عنایت تھی کہ ہم اس صفحے کا حصّہ بنے ہوئے تھے مگر اس میں ایک بہت پیاری شخصیت کا بھی بڑا دخل تھا جو اپنے نام کی طرح “شائستہ” بھی ہیں اور ان کی محبت اور خلوص ” زریں” بھی۔ کسی دن اس پیاری شخصیت کا ذکر بھی تفصیل سے کریں گے۔ ایک دن ایک فیچر میں راشد نور صاحب نے کہا اس بارے میں آصف فرخی سے رائے ضرور لیجیے گا۔ ہم جی اچھا کہہ کر رہ گئے۔ اس وقت ہر مشکل وقت میں شائستہ زریں ہمارے کام آتی تھیں۔ اس وقت بھی جھٹ ان سے آصف صاحب کا نمبر لیا جو پی ٹی سی ایل نمبر تھا اور رات آٹھ بجے کے قریب نمبر گھما دیا۔ آنٹی نے فون اٹھایا بات چیت کے بعد جب ہم نے بتایا کہ ہمیں آصف صاحب سے بات کرنی ہے تو محبت سے ہولڈ کرنے کا کہہ کر چلیں گی۔ تھوڑی دیر کے سناٹے کے بعد ایک مردانہ آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ہم نے نہایت ادب سے سلام کر کے اپنا سوال بتایا اور کہا” اس حوالے سے آپ کا جواب درکار ہے .” جیسے ہی ہماری بات مکمل ہوئی سامنے سے گویا تیز گام چھوٹ گئی۔ ہم نے گھبرا کر کہا ” پلیز ذرا آہستہ، ہم آپ کا جواب نوٹ کریں گے۔” یہ سنتے ہی وہاں سے دھواں دار قسم کی عزت افزائی ہو گئی: ” دیکھیے میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ میں ایسی بچگانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتا پھروں۔ آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ آپ جواب نوٹ کریں گی۔ میں لکھتے سے اٹھ کر آیا اور آپ کو جواب دیا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں جو میں آپ لوگوں پر ضائع کرتا رہوں، اب کیا میں پھر سب کچھ دھراؤں؟ میرے پاس اتنا وقت نہیں۔” اور اس کے ساتھ ہی کھٹ سے فون غالباً پٹخ دیا گیا۔ ہم ہکا بکا ریسیور کو گھورنے لگے اور ہمیں احساس ہوا کہ ہماری آنکھیں بھیگ چکی ہیں۔ ہم سے آج تک کسی نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ ہم نے گم صُم حالت میں ریسیور کریڈل پر رکھ دیا کہ اچانک فون بجا۔ ہم نے بے دھیانی میں فون اٹھایا تو وہی مردانہ آواز گویا گلاب جامن کے شیرے میں ڈوبی ہوئی سنائی دی: ” آپ سحر انکل کی بیٹی ہیں؟ آپ نے بتایا کیوں نہیں؟ آپ کو بتانا چاہیے تھا۔ میں سمجھا کوئی اسکول کالج کی بچی وقت ضائع کرا رہی ہے۔ ایسے کئی شوقین تقریباً روز ہی آن موجود ہوتے ہیں” ہمممم گویا غلطی ہماری ہی ہے ان کی کوئی غلطی نہیں اور مجال ہے کہ معذرت کا لفظ استعمال کیا ہو، گویا موصوف عظمت کے خبط میں بھی مبتلا ہیں۔ ہم یہ ساری باتیں سوچ کر رہ گئے۔ انھوں نے اب پورا جواب دوبارا لکھوایا اور بولنے کی رفتار نہایت مناسب تھی اس لیے ہم نے اطمینان سے لکھ بھی لیا۔ بہرحال یہ طے تھا کہ ان سے ہونی والی یہ پہلی ٹیلیفونک گفتگو ہمارے لیے کوئی خوش گوار تجربہ نہیں تھا۔ مگر کچھ دن بعد ہی ہونے والی اس ملاقات نے ہمیں مخمصے میں ڈال دیا، اس ملاقات میں تو وہ خاصے معقول انسان لگے جس میں بلا کا اعتماد تھا، کوئی کمپلیکس ہی نہیں تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ملیں گے تو چھوٹے ہو جائیں گے یعنی خبط تو کیا بڑائی کا کوئی احساس تک نہیں ہے۔ یعنی یہ تو وہ تصویر نہیں بن رہی جو بچپن سے ہم نے بنائی ہوئی تھی۔ جب انسان مخمصے میں ہو تو شاید سامنے والے پر زیادہ توجہ دینے لگتا ہے اس لیے ہم نے آصف صاحب کو اسٹڈی کرنا شروع کیا۔ ہمیں احساس ہوا کہ وہ ایک اعلیٰ اور فعال ذہن کے مالک ہیں، ان کا ایک مخصوص حلقہ احباب ہے جس میں وہ چہکتے بھی ہیں فقرے بھی دیتے ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں۔ تاہم کم سے کم ہم نے انھیں قہقہ لگاتے اس وقت نہیں دیکھا۔ وہ دوستوں کے علاوہ ہر ایک سے ملنا پسند نہیں کرتے بلکہ بچتے ہیں۔ ملنا بڑے تو ایک فاصلے سے مگر خوش دلی سے ملتے اور نپی تلی گفتگو کرتے ہیں۔ مائیک پر بھی پورے اعتماد سے دو ٹوک اور صاف بات کرتے ہیں۔ ہم نے ان کی گفتگو یا تحریر کو ذرا بھی گنجلک نہیں پایا۔ اس دوران بیسیوں مرتبہ آصف صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ خوش دلی سے ملے اور ہمیں محسوس ہونے لگا کہ وہ کوفت جو بچپن سے ہمارے ذہن میں اس نام سے جڑ گئی تھی وہ خدا جانے کب اور کیسے ختم ہو گئی تھی، نہ صرف یہ بلکہ اس کی جگہ ایک احترام نے لے لی تھی۔
ہمارے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی کیوں کہ ہم کسی کو بہت سوچ سمجھ کر اپنی گڈ بک میں رکھتے ہیں پھر اگر کوئی اس گڈ بک سے نکلنا چاہے تو اسے سخت محنت کرنی ہوگی، اسی طرح جو اس گڈ بک میں نہیں ہے اسے اس گڈ بک میں آنے کے لیے سخت محنت درکار ہوگی کیوں کہ ہم آسانی سے کسی کی جگہ بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مگر ہماری زندگی میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی کی جگہ ہماری زندگی میں غیر محسوس انداز سے بدل گئی تھی۔ کیوں؟ ہمیں اب اس سوال کی تلاش تھی۔