Categories
Arsalan khan Exclusive Imran khan Karachi MQM PTI انکشاف ایم کیو ایم پیپلز پارٹی تحریک انصاف سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مسلم لیگ (ن) مہاجرقوم

ایم کیو ایم کو 2014 میں “نواز حکومت” حمایت کی سزا ملی

تحریر: ارسلان خان
یہ ان دنوں کی بات ہے جب خان صاحب کا جادو سر چڑھ کر نیا نیا بولنا شروع ہوا تھا ۔۔۔ “تحریک نیا پاکستان” کی جدوجہد ملک کے کونے کھُدروں سے نکل کر اسلام آباد کی شاہراہ دستور تک پہنچ چکی تھی۔ ہر طرف “حقیقی آزادی” کے ترانوں کی گونج تھی ۔۔۔
دھرنا بام عروج پر تھا اور دست شفقت دستانوں سمیت متحرک ۔۔۔ ٹارگٹ بس ایک تھا نون کا بستر گول کرنا ۔۔۔ زرداری صاحب اور مولانا کے انکار کے بعد طاہر القادری کے زریعہ اس وقت کی ‘ایم کیو ایم’ اور الطاف حسین صاحب کی رضا مندی پر کام شروع کیا گیا ۔۔۔ اس دوران ڈی چوک اسلام آباد نائین زیرو عزیزآباد کراچی اور لندن Edgware Road کے بیچ متعد ٹیلی فون کالز کا تبادلہ ہوا۔ اس دوران طاہرالقادری صاحب نے لندن فون کرکے یہ گارنٹی بھی دی کہ اگر آپ کے ہمارا ساتھ دینے کے نتیجہ میں یہ حکومت جاتی ہے تو ہم سندھ میں پیپلز پارٹی کا گیم آف کرکے سندھ آپ کے حوالہ کردیں گے۔ اسی اثنا میں لندن کراچی و اسلام آباد میں موجود متحدہ کی قیادت کے لمبے لمبے مشاورتی اجلاس رپورٹ ہوئے مگر نتیجہ وہ نہ نکل سکا جو اس وقت کی ضرورت تھا اور الطاف بھائی اور اس وقت کی ‘ایم کیو ایم’ کی قیادت نے میاں صاحب کی جمہوری حکومت غیر جمہوری طریقہ سے گرانے کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا اور میاں صاحب کے پیچھے موجود زرداری صاحب اور مولانا وغیرہ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوگئے۔ الطاف حسین یا ‘ایم کیو ایم’ نے وہی کیا جو کوئی بھی جمہور پسند سیاسی جماعت یا رہنما کرتا، مگر خان صاحب اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ اسٹیبلشمنٹ کے پلان اور خان صاحب کے مقصد کی تکمیل کے راستہ میں حائل رکاوٹوں میں ایک مضبوط سیاسی اکائی کے اضافہ نے پیٹی بھائیوں کو غصہ دلا دیا ۔۔۔ متحدہ چوں کہ قدرے ایک آسان ہدف تھی اسی لئے سب سے پہلے متحدہ اور الطاف حسین کو ہی مثال بنانے کی ٹھان لی گئی۔
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول کا الم ناک واقعہ ہوجاتا ہے۔ عمران خان نے موقع غنیمت جانا اور دھرنا لپیٹا اور گھر۔۔۔ نواز شریف کے سر پر سے بھی لٹکتی تلوار وقتی طور پر ہٹا لی گئی مطلب حکومت بچ گئی، مگر کھیل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اب تو کھیل شروع ہوا تھا۔
اب آتے ہیں مارچ 2015 میں چئیرمین سینٹ کا انتخاب ہوا۔ مقابلہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان تھا ‘ایم کیو ایم’ کے پاس فیصلہ کُن ووٹ تھے، دونوں بڑی جماعتوں سے بات چیت چل رہی تھی مگر آخر میں ‘ایم کیو ایم’ نے اپنا وزن سندھ میں اس وقت کی اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈال کر رضا ربانی صاحب کو چئیر مین سینیٹ منتخب کروا دیا۔
اسٹیبلشمٹ کے کرتے دھرتوں کے لیے چوٹ مارنے کا یہ ایک سنہری موقع تھا۔ چوہدری نثار علی خان کے زریعہ میاں صاحب کو راضی کروایا گیا اور شاید اگلے ہی روز رینجرز نے الطاف حسین کی رہائش گاہ نائن زیرو کراچی پر چھاپہ مارا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے اتحادی ہونے کے باوجود ‘ایم کیو ایم’ پر ایک اور فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔
مقاصد صاف تھے !!
۱- ‘ایم کیو ایم’ کو پچھاڑ کر مصنوعی طریقہ سے تحریک انصاف کو کراچی میں مضبوط کرنا
۲- پراجیکٹ تبدیلی کے درمیان حائل مخالفوں کو تقسیم کرنا
۳- سال 2014 میں الطاف صاحب اور ‘ایم کیو ایم’ کے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کاوشوں کا حصہ نہ بننے پر انہیں سبق سکھانا اور نشان عبرت بنانا
وغیرہ وغیرہ
‘ایم کیو ایم’ کو سائیڈ لائن کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور بہت ہی آسانی سے “مائنس ون” فارمولا کا پہلا راؤنڈ جیت لیا گیا۔
مطلب اگر آسان بھاشا میں کہا جائے تو پہلے عمران خان کے مقابلے میں میاں صاحب کا ساتھ دینے سے اسٹیبلشمٹ اور خان صاحب ناراض ہوئے پھر سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے پر میاں صاحب ناراض۔ ان دونوں ناراضگیوں کے نتیجہ میں جب مار پڑی تو بچانے زرداری صاحب بھی نہیں آئے، بلکہ انھوں نے تو چپ کرکے سائیڈ ہی پکڑ لی۔
چلیے الطاف حسین را کا ایجنٹ تھا، مودی سے مدد مانگتا تھا۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گاتا تھا۔ اس سے ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے مگر مصطفی کمال؟ انھیں تو آپ خود ڈرائی کلین کرکے لائے تھے ۔۔۔ پوری اسکیننگ وغیرہ کے بعد ہی “پاک سر زمین” پر اتارا انھیں تو آپ نے۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ کا وہ تاریخی وعدہ جو آپ نے ان سے کیا جس پر لوگ آج تک ان کا مذاق بناتے ہیں اور ایسے ہی نہ جانے کتنے وعدے وعید ۔
میدان میں اتار دیا جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مقصد صرف الطاف فیکٹر کو کمزور کرنا تھا۔
وعدے نہ وفا ہونے تھے نہ ہوئے اور سندھ میں حکومت بنانے کے دعوے کرنے والی “پی ایس پی” کے ہاتھ سندھ بھر سے ایک رکن صوبائی اسمبلی کی نشست تک نہیں آئی۔ اور ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ یہ سب کھیل کھیلنے والوں کی ترجیح کراچی یا کراچی کے مسائل نہیں بلکہ اس شہر کے وسائل تھے جن پر قبضہ ایک مضبوط اور منظم ‘ایم کیو ایم’ کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔۔ اسی لیے وعدے بے شک کیے گئے مگر پورے کرنے کے لیے نہیں
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ 2018 کے انتخابات کے وقت مصطفیٰ کمال کی “پی ایس پی” قدرے ایک نا تجربہ کار جماعت تھی اس لیے اس وقت صاحیب لوگوں نے تحریک انصاف کو اس پر فوقیت دی ۔۔۔ مان لیا وہ ناتجربے کار تھے تو وہ سرکاری ‘ایم کیو ایم’ جس کے تصور سے لے کر تیاری تک سب آپ کی چھتر چھایا میں ہوا۔ وہ تو پارلیمانی سیاست اور حکومتی معاملات میں تحریک انصاف سے زیادہ تجربہ رکھتی تھی اور وہ تو آپ کے پیمانوں پر پورے اترتے محب وطن بھی تھے ۔۔۔ زندہ باد بھی بولتے تھے ۔۔۔ پھر انھیں کیوں آگے لگایا ؟؟؟
کیوں بچی لچھی پارٹی میں مزید تقسیم ڈالی ؟؟؟ کیوں انھیں کمزور سے کمزور تر کیا؟؟؟
بہادر آباد ‘ایم کیو ایم’ نے تو ہر فیصلہ ہر کام آپ مرضی و منشا کے عین مطابق کیا پھر کیوں آج فیصل سبزواری صاحب کو ٹی وی پر بیٹھ کر بتانا پڑ رہا ہے کہ 2019 میں آپ کے لاڈلے کی حکومت میں ان کے ساتھیوں کیساتھ کیا ہوا ؟؟؟ کیسے مردم شماری جیسے انتہائی عوامی نوعیت کا مسئلہ اٹھانے اور اس کی بنیاد پر وزارتوں سے استعفے دینے کے نتیجہ میں آپ نے ان کے لوگ ہی اٹھا لئے ۔۔۔ کمال ہی کرتے ہو پانڈے جی !!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *