تحریر: محمود الحسن
1963میں عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ شائع ہوا تو اسے خاصا سراہا گیا۔ عام قاری کے ساتھ ساتھ اس کی تحسین ادب کے شناوروں نے بھی کی۔ قرة العین حیدر نے اپنی خود نوشت ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں عبدااللہ حسین پر سرقے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’اداس نسلیں کے متعدد ابواب میں، میرے بھی صنم خانے، سفینہِ غمِ دل، آگ کا دریا، اور شیشے کے گھر کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے ردوبدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ نہ کسی نے اشارةً بھی اس کا ذکر کیا۔ کیا یہ میل شاونزم نہیں ہے؟‘
آگ کا دریااور افواہ ساز فیکٹریاں آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد مصنفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا، جس میں سراج رضوی نام کے ایک صاحب پیش پیش تھے، انھوں نے 20اپریل 1960 کو جنگ اور مارننگ نیوز میں مضمون لکھا جس میں انھیں پاکستان اور اسلام دشمن قرار دے کر ناول پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مذموم مہم کی گرد تھوڑے عرصے بعد بیٹھ گئی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ناول نگار کی طرف سے قانونی نوٹس ملنے پر سراج رضوی نے معافی مانگ لی۔
ہندوستان میں افواہ ساز فیکٹریوں نے اس ناول کے حوالے سے خوب جھوٹ گھڑے۔ یہ تک کہا گیا کہ ناول سنسر ہوا ہے اور اس پر پابندی لگ گئی ہے۔ اس سارے قضیےکو قرة العین حیدر نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
’ایک باب میں، میں نے محض دو لفظ لکھے تھے ’ہندوستان 1947‘ یعنی تھوڑا لکھے کو بہت جانیے، لیکن ایک لال بجھکڑ نے اپنے تبصرے میں تحریر کیا، ’تقسیم سے متعلق پورا باب مارشل لا کے سنسر نے حذف کر دیا، صرف ایک جملہ باقی بچا ہے۔ سب سے حیرت ناک افواہ جو ہندوستان میں پھیلی وہ یہ تھی کہ حکومت پاکستان نے آگ کا دریا بین کردیا گیا ہے…. دوسری روایت ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد پاکستان میں بے حد پرسیکیوٹ کیا گیا۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور بے چاری کو وہاں سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینا پڑی۔‘
آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد مصنفہ کی ذات پرکچڑ اچھالا گیا
بنگال کے پس منظر میں لکھا یہ ناول، نظریے سے کمٹمنٹ اور پھر اس سے انحراف کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس ناول پر ترقی پسندوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور اپنی تحریک پر طنز جانا۔ اس کا سوتا دو واقعات سے پھوٹا۔
لاہور کے ایک ریستوران میں فیض احمد فیض نے ایک صاحب سے قرة العین حیدر کو متعارف کرایا اور بتایا کہ یہ ان کے ساتھ راول پنڈی سازش کیس میں جیل میں تھے۔ ان صاحب نے شیروانی پہن رکھی تھی اور ہاتھ میں 555 کا ٹن تھا۔
اسی طرح ڈھاکا یونیورسٹی میں انگریز عہد کے مشہور مسلمان کرانتی کارکو دیکھا جو ہتھکڑی سمیت دریا عبور کرکے بھاگ گئے تھے۔ قرة العین حیدر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ مذکورہ دو کردار ناول لکھنے کے لیے ان کی انسپریشن بنے۔ اس ناول کا نام مصنفہ نے فیض کے اس شعر سے اڑایا ہے:
آخرِ شب کے ہمسفر فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا صبح کدھر نکل گئی
گردش رنگ چمن کا پراسرار کردار
عمرمیری ہوگئی صرفِ بہار حسنِ یار
گردشِ رنگِ چمن ہے ماہ و سالِ عندلیب
(غالب)
گردش رنگ چمن سنہ 1987 میں شائع ہوا۔ یہ لکھنؤ کے پس منظر میں ہے، اس شہر سے انھیں بڑی محبت تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لکھنوی تہذیب جس طرح برباد ہوئی اس کا بڑا رنج تھا، اسی کا تخلیقی اظہار ناول میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناول کا نام انگریزی میں رکھا جائے تو وہ ’دی ڈیتھ آف اے سٹی‘ ہوگا۔
اس ناول میں ایک صوفی پیر کا کردار ہے جس کا بیان ڈیڑھ دو سوصفحوں پر پھیلا ہے، بعض ناقدین نے اسے اصل کہانی سے غیرمتعلق قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ کردار فرضی نہیں حقیقی ہے۔
ناول کے ’میاں ‘ کو اصل زندگی میں ’بھیا‘ کہا جاتا۔ ممتاز نقاد ڈاکٹر آفتاب احمد نے لکھا ہے کہ ان سے قرة العین حیدر نے کہا کہ بھیا کے کشف وکرامات اور روحانی طاقتوں نے انھیں بہت متاثر کیا۔ یہ بھی بتایا ’جن چیزوں کے بارے میں صرف پڑھا سنا کرتے تھے۔ اب وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ میری عقل وفہم سے بالا تر ہے۔‘
قرة العین حیدر نے ’کار جہاں دراز ہے‘ میں لکھا ہے:
’آپ کا گھسیاری منڈی کا سکول‘ بیگم کلثوم نواز شریف نے بات شروع کی۔ میں چونکی، پنجاب (پاکستان)کے چیف منسٹر کی بیگم جو مغربی پنجاب سے تعلق رکھتی تھیں اور کبھی لکھنو گئی نہیں تھیں۔ یہ گھسیاری منڈی کہاں پہنچ گئیں۔‘
سابق پاکستانی خاتون اول کی لکھنؤ کے بارے میں جان کاری سے قرة العین حیدر کو جو حیرت ہوئی وہ اس وقت جاتی رہی جب انھیں معلوم ہوا کہ کلثوم نواز، لکھنو کے آغا سہیل کی شاگرد ہیں اور عظیم شہر کی تہذیب سےانھیں خاص دلچسپی ہے۔
ایم اے اردو میں کلثوم نواز نے’ فسانہ عجائب ‘کے مصنف رجب علی بیگ سرور کی شخصیت اور کام پر مقالہ لکھا تھا جو کتابی صورت میں ’رجب علی بیگ کا تہذیبی شعور‘ کے عنوان سے سنگ میل پبلی کیشنز نے شائع کیا۔
ایک انٹرویو میں کلثوم نواز نے قرة العین حیدر کو اپنی پسندیدہ لکھاری قرار دیا جو ان کے خیال میں ’اپنے ماحول کی چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی سے معمولی چیز کو نظر انداز نہیں کرتیں۔
قرة العین حیدر کی معروف سیاست دان مشاہد حسین سید کی ساس سے قریی عزیز داری تھی۔ نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں مشاہد حسین کی والدہ، ساس اور اہلیہ کے ساتھ قرة العین حیدرکی کلثوم نواز سے ملاقات بھی ہوئی جس کی تصاویر انھوں نے ’کف گل فروش‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہونے والے تصویری البم میں شامل کیں۔
(قرة العین حیدر نے پاکستان کیوں چھوڑا؟)
پاکستان کی ادبی تاریخ کا ایک بڑا جھوٹ یہ ہے کہ قرة العین حیدر نے ’آگ کا دریا‘ پر ہونے والی تنقید سے تنگ آکر پاکستان چھوڑا۔ اس سفید جھوٹ کو اس تواتر سے نامی گرامی لکھنے والوں نے دہرایا ہے کہ قریب قریب اب اسے حقیقت ہی سمجھاجاتا ہے۔ اس کذب کی تردید کسی اور نے نہیں خود قرة العین حیدر نے اپنی زندگی میں کردی لیکن جن کا کوا سفید تھا وہ سفید ہی رہا۔ ان کے ہندوستان جانے میں کسی نوع کے دباؤکو دخل نہیں تھا، یہ سراسر آزادانہ فیصلہ تھا۔ ہندوستان واپس جانے کا عندیہ انھوں نے فیض احمد فیض کے سامنے بھی ظاہر کیا:
’فیض صاحب لاہور واپس جانے والے تھے۔ دوسرے روز ماری پور تشریف لائے ۔ میں نے کہا:فیض صاحب عمرعزیز کے دس سال برباد ہوگئے کچھ نہ کیا، اماں کی صحت اب بہتر ہوگئی ہے۔ میں یہاں سے اڑن چھو ہوتی ہوں۔‘
ایک انٹرویو میں بھی انھوں نے اصرار کیا کہ ان کا ہندوستان جانا کسی دباﺅ کا نتیجہ نہیں تھا۔
قرة العین حیدر سنہ 1961 میں انگلینڈ گئی، وہاں سے پاکستان لوٹنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے ہندوستان جابسیں، اس سے پہلے پنڈت جواہر لعل نہرو سے لندن میں ان کی ملاقات ضرور ہوئی۔ کہتے ہیں کہ نہرو نے انھیں ہندوستان لوٹ آنے کے لیے کہا تھا۔
ہندوستان میں انھوں نےادبی سفر کامیابی سے آگے بڑھایا۔ انگریزی صحافت سے بھی ناتا رہا، السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں سات آٹھ برس کام کیا۔
وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ مختلف اداروں کے بورڈ میں شامل رہیں۔ بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشل سے کئی سال وابستگی رہی۔
سنہ1989 میں انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ملا۔ سنہ2005 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علی گڑھ میں آنکھ کھولنے والی قرة العین حیدر نے 21 اگست 2007 کو نوئیڈا(یوپی) میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔