تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب کراچی میں کوئی آواز زندہ یا بولنے کے قابل باقی نہیں رہی جو زمین کے ایسے “قبضوں” کے خلاف کوئی بات بھی کر سکے، لہٰذا کام یابی سے مائی کولاچی کے مینگروز کا خاتمہ ہونے کے بعد اب خیر سے پانی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے، ویسے بھی اس پانی کا فائدہ ہی کیا تھا، گندگی، بدبو، مچھر اور نہیں تو۔۔۔
اب پاک وطن کی یہ زمینیں فروخت ہوں گی یا ہوچکی ہوں گی اور کسی نہ کسی کے تو کام ہی آئیں گی ہی، وہ “گندا پانی” اتنے عرصے سے پڑا ہوا تھا سوائے بدبو اور گندگی کے کسی کام کا نہیں تھا اور ویسے بھی اس میں صنعتی فضلے سے وہ سیاہی پھری تھی کہ توبہ ہی بھلی۔ پتا نہیں کیوں لوگوں کو وہ سیاہ “غلاظت کا ڈھیر” اتنا عزیز تھا کہ اس کے واسطے رونا پیٹنا لگائے رکھتے تھے اب زمین ہے صاف ستھری، عمارتیں ہوٹلیں اور وغیرہ وغیرہ سوسائٹیاں بنیں گی، پیسہ آئے گا اور پھر پیسہ جائے گا (باہر)
قوم کو مبارک ہو، سمندر، ندیوں اور پانی کے فطری راستوں سے زمین نکالنے کا یہ عمل جاری ہے اور تیز تر رہے گا، اسے موسمیاتی تبدیلیاں، غیر معمولی بارشیں اور شہری سیلاب جیسے “چھوٹے چھوٹے” مسئلے رکاوٹ بن کر نہیں روک سکتے۔
اب “جیے ۔۔۔۔۔ ” کا نعرہ لگائیے اور پاک وطن کی مٹی کی خوش بو پائیے ویسے بھی اگست آنے والا ہے بھلا بتائیے کسی شاعر نے پاک وطن کے پانی کی تعریف میں کچھ لکھا ہے؟ نہیں ناں؟ جس نے بھی لکھا ارض وطن، پاک مٹی، سوھنی دھرتی اور وغیرہ وغیرہ طریقوں سے اس ملک کی مٹی کو ہی یاد کیا سو اگر ہم نے مائی کولاچی کے دونوں اطراف گندے پانی کو پرے دھکیل کر مٹی بھردی ہے تو کوئی شور نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں زمینیں بہت عزیز ہیں، ہم ایسے ہی ملک کے رقبے میں اضافہ کرتے رہیں گے اور ہاں یہ ان لوگوں کے پچھواڑے پر چماٹا ہے جو کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا رقبہ نہیں بڑھا!
او عقل کے اندھو !
آئو دیکھو کیسے رقبہ بڑھ رہا ہے، کیسے ہم پانی سے اپنے ملک کی زمین نکال رہے ہیں اور “دشمن پانی” کو پس پا ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسے بہت سی جگہوں پر ہم نے پانی بھگایا ہے اور زمین پر فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ جے ہو اور جے جے ہو!
Categories