Categories
ایم کیو ایم جماعت اسلامی رضوان طاہر مبین قومی سیاست کراچی

کراچی پرویز مشرف کو کیوں چاہتا ہے؟

تحریر:
رضوان طاہر مبین
12 اکتوبر آئی، تو 1999ءمیں اس دن ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف ’فیس بک‘ پر ’جمہوری جذبات‘ کے اظہار کی ایک لہر چلی اس بغاوت کی وجوہات کوئی بھی رہی ہوں، ایک جمہوری حکومت کو آئین پامال کرتے ہوئے ایک جرنیل نے پروانہ¿ رخصت عطا کیا۔ بظاہر اس میں کوئی کلام نہیں، کہ جس کا کام اسی کو ساجھے اور فوج کا سیاست میں مداخلت کرنا اور ’جمہوریت‘ سے چھیڑ خانی کرنا کسی طور مناسب عمل نہیں ہے
لیکن دوسری طرف ہم ’لاوارث کراچی‘ کے شہری ہیں جنھوں نے ابھی ماضی قریب میں اسی ”آمرِ مطلق“ کا دور دیکھا، اس کے بعد کی صورت حال بھی دیکھی اور اب بھی دیکھ رہے ہیں اور اس سے پہلے کی حالت بہ خوبی دیکھی ہے۔ جس کا نچوڑ یہی سامنے آتا ہے کہ بدقسمتی سے اس ”غیر جمہوری“ اور ”غیر آئینی“ طور پر آنے والے جرنیل نے کراچی والوں کو وہ ’جمہوریت‘ اور بنیادی حقوق عطا کیے، جو ماضی بعید میں بھی شاید کوئی نہیں دے سکا اور نہ پرویش مشرف کے بعد ’بحال‘ ہونے والی جمہوریتوںکو اس کی ذرا سی بھی توفیق ہو سکی!
یار لوگ یہاں 12 مئی 2007ءکے واقعات کا ’دفتر‘ کھولیں گے، پرویز مشرف کے امریکا کی گود میں بیٹھ جانے کا نوحہ کہیں گے، کراچی میں ہونے والی ’چائنا کٹنگ‘ کا گریہ کریں گے، کچھ لوگ ’ایم کیو ایم‘ کی ”دہشت گردی“ کو جواز کر کے آہنگ بلند کریں گے، عدلیہ کے بحران، لال مسجد کا واقعہ، اکبر بگٹی کے قتل سے لے کر دوسری بار دستور معطلی کے مقدمات بھی لے آئیں گے، لیکن ان تمام غلطیوں یا جرائم کے باوجود وہ اس سچائی کا رد نہیں کر سکتے آج بھی کراچی کو کراچی کے مینڈیٹ کے شایان شان قبولیت اسی فوجی جرنیل نے ہی عطا کی اس عروس البلاد کی مانگ پہلے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی سرکردی میں سنوری، تو اگلے برس سے ’ایم کیو ایم‘ بھی صوبائی اور وفاقی حکومت میں ساجھے دار ہوگئی شہر میں لاشوں، ہڑتالوں اور تشدد کی سیاست کافی حد تک ختم ہو سکی، دنگا فساد میں ماضی کے مقابلے میں واضح طور پر کمی آئی، ہر چند کہ گاہے گاہے ’اہدافی قتل‘ جاری رہے راہ زنی اور چھینا جھپٹی بھی کبھی بہت زور پکڑ جاتی، لیکن جب ہم مجموعی طور پر اس دور کو اگلے اور پچھلے دور میں رکھ کر دیکھتے ہیں، تو ایک واضح بہتری دکھائی دیتی ہے، پھر ’شہری حکومت‘ میں ’ایم کیو ایم‘ کے ناظم سید مصطفیٰ کمال نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا وہ ایک الگ بحث ہے کہ بعد میں کس نے اور کس طرح سے کراچی کے حالات خراب کیے اور پھر بہت شاطرانہ طریقے سے کراچی کو پوری قوت سے 1990ءکے زمانے والی خوں آشام لسانیت میں دھکیلا غور کیجیے، تو یہ بہت پراسرار سا ایک سلسلہ ہے، جسے 12مئی 2007ءکے ایک خالص ’سیاسی تصادم‘ کو نسلی اور لسانی رنگ دے کر خوب ہوا دی گئی، اور پھر پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد 2008ءمیں اس لسانیت کی آگ نے شہر کو جلانا شروع کر دیا لیکن ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم 1999ءمیں جمہوری حکومت کے خاتمے کے وقت سندھ میں نافذہ گورنر راج، کراچی کی بے چینی اور ’فوجی عدالتوں‘ کو بھول کر ایک دم 2007-08ءکے امن وامان کے مسائل لے کر بیٹھ جائیں؟
آج جب پرویز مشرف کو رخصت ہوئے 14 برس بیت چکے ہیں، یہ دونوں جماعتیں تک جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں پس وپیش دکھانے لگی ہیں، بلکہ بعض اوقات تو شرم ناک حد تک ’چھوٹے پن‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی کی ساری ترقی کو براہ راست اپنی جھولی میں ڈال لیتی ہیں، یہ نہایت ہی کم ظرفی والی بات ہے دوسری طرف سوال یہ ہے کہ آخر کیوں اس سے پہلے اور بعد کے حاکموں نے کراچی کے لیے اس کھلے دل اور کھلے ذہن کا مظاہرہ نہیں کیا؟ آخر کیوں نام نہاد جمہوری حاکموں نے نہیں چاہا کہ کراچی والوں کو دل سے اپنا کر انھیں بھی پرویز مشرف والے جمہوری حقوق دے کر ہمیشہ کے لیے ان کا گلہ دور کر دیا جائے؟
اب اگر کراچی خود پر کیے گئے احسانات کے صلے میں جنرل پرویز مشرف کی مدح کرے، تو الٹا اس کی کیفیت سمجھنے کے بہ جائے اسے ہی مطعون کیا جاتا ہے اور اس پر تعصب کے ’شکنجے‘ کسے جانے لگتے ہیں اور ’وقت کے تقاضے‘ کے نام پر فی الحال ”جمہوریت“ کے نام لیوا بننے کی صلاح دی جاتی ہے کہ اس آمر پر چار حرف بھیجو، ہم جمہور اور جمہوریت کے نام لیوا ہیں، ہمارے ساتھ مل جاﺅ؟ لیکن کراچی پوچھتا ہے صاحب، کون سی جمہوریت؟ اور کہاں کی جمہوریت؟
میری وہی جمہوریت، جس پر کوئی جرنیل نہیں، بلکہ تم ہی لوگ ہمیشہ کنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہو؟ میں کون سی ’جمہوری تحریک‘ کی حمایت کروں؟ اسی جسٹس افتخار چوہدری سے میں نے بھی کچھ امید لگائی، لیکن اس تحریک سے کراچی کی تباہی کے سامان کے سوا کچھ بھی تو برآمد نہ ہوا پھر آج میں لمحہ بھر کو جنرل پرویز مشرف کی ساری عنایات بھول کر تمھارا ساتھ دیتا ہوں، لیکن تم توآج بھی اپنی صفوں میں مجھے جگہ دینے کو، کھل کر میرا نام تک لینے کو تیار نہیں! بقول اقبال
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دل دار نہیں
کراچی کا استفسار ہے کہ پرویز مشرف کے لیے میری یہ مدح تمھیں فقط ”آمریت پسندی“ یا ”جرنیل پسندی“ کیوں دکھائی دیتی ہے؟ اس المیے کا جواب تو تمھاری صفوں سے آنا چاہیے کہ کیوں آج بھی میرے مکمل جمہوری حقوق کی مانگ کرتے ہوئے تمھاری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں؟ جب کراچی سے لینے کی بات آتی تھی، تو تم ہمیشہ میرے کاندھے پر چڑھ کر حزب اختلاف کی تحریک چلاتے رہے اور ہر نئے انتخابات میں حکومت سازی کے لیے جب بھی ووٹ کم پڑتے تھے، تو بڑے چاﺅ سے میری یاترا کرتے اور تلخ ماضی بھولنے کی باتیں کر کے خوب مکھن لگاتے، بتاﺅ آج میں تمھارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہوں؟ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ مجھ سے یہ تقاضا کیوں کیا جاتا ہے کہ میں اپنا خون کرنے کے لیے نام نہاد ”جمہوریت“ کی آواز سے آواز ملاﺅں، ایسی جمہوریت جو اکثر حاکموں کو فقط اس لیے عزیز ہے کہ انھیں اقتدار تک لے جاتی ہے غلطیاں اور جرائم سبھی حاکموں سے ہوئے ہیں، سب کا ہی احتساب ہونا چاہیے
اگر سمجھنا ہو تو، بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ’قانونی‘ حاکم کراچی کا دَم گھونٹ کر رکھیں، اسے جینے ہی نہ دیں، اس کی جان کے درپے ہوں اور ایسے ماحول میں کوئی ”غیر قانونی“ حاکم آکر اسے سنوار دے، اس کے گلے شکوے دور کرے، اسے پھر سے روشنیوں کا شہر بنا دے اور چند برسوں میں کراچی واضح طورپر ابھرتا ہوا محسوس ہو، ایسی حالت میں مجھے بتائیے کہ پھر کیا اسے کوئی سروکار ہونا چاہیے کہ یہ ’آئینی‘ کیا ہوا اور ”غیر آئینی“ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *