سمے وار (خصوصی رپورٹ)
اردو کے نام ور شاعر رانا منور کی مشہور زمانہ طویل نظم ’مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں‘ دراصل ایک اور مشہور شاعر شورش کاشمیری کی پرانی نظم کا چربہ ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ منور رانا نے لگ بھگ اسی موضوع پر شور ش کاشمیری کی نظم سے اس کا ردیف اخذ کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منور رانا کے اس کلام کو شورش کاشمیری کی اس نظم سے کہیں زیادہ شہرت ملی، آئیے ہم آپ کو اس نظم سے روشناس کراتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اسی موضوع پر چست کی گئی یہ نظم باذوق قارئین کو ضرور بالضرور پسند آئے گی۔
ہندوستان کے نام
کبھی اس بات کو سوچا ہے بھارت کے مہا پُرشو
تمھارے ملک میں اک داستاں ہم چھوڑ آئے ہیں
نہ یاد آئے تو پھر تاریخ کے اوراق میں دیکھو
بہت سے کارناموں کے نشاں ہم چھوڑ آئے ہیں
شجاعت شہسواروں کی، شرافت شہر یاروں کی
تمھارے پاس یہ دولت کہاں؟ ہم چھوڑ آئے ہیں
وضو کی دل کشی کا عکس ہے جمنا کے پانی میں
کنار رودِ گنگا پر اذاں ہم چھوڑ آئے ہیں
نمازوں کا تقدّس مسجدوں کے صحن اقدس میں
کئی سو سال کی تاب و تواں ہم چھوڑ آئے ہیں
قدم ایبک کے، غوری کی سناں، محمود کی ضربیں
ہزاروں بت کدوں کے درمیاں ہم چھوڑ آئے ہیں
معین الدینؒ کی چوکھٹ، نظام الدین ؒ کا روضہ
علاءالدین صابرؒ کا مکاں ہم چھوڑ آئے ہیں
نوادر علم و حکمت کے خدا نے جس کو بخشے تھے
ولی اﷲ ؒ ایسا نکتہ داں ہم چھوڑ آئے ہیں
جواہر لال نہرو کی چتا ہے آشنا اس سے
کہ یوپی میں غزلہائے رواں ہم چھوڑ آئے ہیں
غزل کی بات ہے لیکن زباں پر آ ہی جاتی ہے
نگاہِ دل براں، زلف تباں ہم چھوڑ آئے ہیں
سحر کی داستانیں، چاندنی راتوں کے افسانے
انھیں اپنے لیے رطب اللّساں ہم چھوڑ آئے ہیں
بہت سے تذکرے مدفون ہیں دلّی کی مٹی میں
الہٰ آباد کو نوحہ کناں ہم چھوڑ آئے ہیں
سلام جُہدِ حُرّیت علی گڑھ کے نوجواں کو
کہ ان کے دامنوں میں اک جہاں ہم چھوڑ آئے ہیں
غزل کا لوچ ، لہجہ کی نزاکت، نظم کے تیور
ترے دامن میں اے ہندوستان ہم چھوڑ آئے ہیں
زبان میر و غالب لوٹ لی آکاش وانی نے
یہ صدمہ کم نہیں اردو زباں ہم چھوڑ آئے ہیں
خیال اس کا نہیں اس ملک میں کوئی نہیں اپنا
ملال اس کا ہے یاد دوستاں ہم چھوڑ آئے ہیں
عرب اٹھا، عجم تڑپا، زمین کانپی، فلک لرزا
تھا جن کا حوصلہ یہ، وہ جواں ہم چھوڑ آئے ہیں
دیار لکھنو کی شام، جیسے نور کا تڑکا
خود آئے ہیں مگر اپنا سماں ہم چھوڑ آئے ہیں
مجھے کہنا پڑا ہے اکبر اعظم کی نسبت سے
کوئی تو چیز ہے جس کے نشاں ہم چھوڑ آئے ہیں
مگر ہندوستاں کو شرم آجائے یہ ناممکن
اے خوفِ خدا سے بدگماں ہم چھوڑ آئے ہیں
وقار انبالوی اس پر غزل کہہ دیں تو بہتر ہے
جو اپنے پاس تھا شورش وہاں ہم چھوڑ آئے ہیں
(شورش کاشمیری)