ہائیکورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ماس کمیونیکیشن کے 2019 کے سلیکشن بورڈ پر عمل کیوں نہیں ہورہا؟
تحریر: فائز علی خان
شاید کراچی یونیورسٹی چاہتی ہے کہ وہ اب میرٹ پر آنے والوں کو ایسی عبرت ناک مثال بنائے کہ پھر کبھی کوئی شریف اور قابل شہری اپنے میرٹ اور اہلیت کے بجائے سیاسی سفارشات اور لابیوں کے چکر میں ہی پڑا رہے، اور جیسے ہمارے ملک میں اکثر ہوتا ہے کہ اصل ٹیلنٹ ضایع ہوجاتا ہے اور نااہل لوگ راج کرتے ہیں۔
تو یہ کہانی شروع ہوتی ہے مئی 2019ء سے جب کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پانچ لیکچررز اور تین اسسٹنٹ پروفیسرز کے لیے سلیکشن بورڈ ہوتا ہے، مگر کسی فلمی سین کی طرح دو روز بعد وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان کا انتقال ہو جاتا ہے اور پھر ڈاکٹر خالد محمود عراقی قائم مقام وائس چانسلر بن جاتے ہیں۔ یہاں سے اس سلیکشن بورڈ کے خلاف میڈیا میں ایک باقاعدہ محاذ لگتا ہے، چینلوں پر خبریں اور باقاعدہ ایک میڈیا ٹرائل کی صورت حال پیدا ہوتی ہے، کیوں کہ یہ نہ کراچی یونیورسٹی کی اس لابی کے اور نہ اُس لابی کے تھے۔ اس لیے “لاوارث” قرار پائے
اس لیے اب ان کی بدنصیبی کہ شاید ساری ہی لابیاں چاہتی تھیں کہ اچھا ہے یہ ایسے ہی مریں! سو 29 جون کو ڈاکٹر خالد عراقی صاحب کے زیر صدارت پہلے سینڈیکیٹ اجلاس میں اس سلیکشن بورڈ کو نل اینڈ وائڈ قرار دیا جاتا ہے۔
شاید کراچی یونیورسٹی کی تاریخ میں ایسے کسی بھی سلیکشن بورڈ کو نل اینڈ وائڈ نہیں کیا گیا، ریفر بیک ضرور ہوتا تھا، جس میں کسی شکایت یا کمی بیشی کا ازالہ کر دیا جاتا تھا۔
بہر حال اس انوکھے واقعے میں سینڈیکیٹ میں منظور کیا جاتا ہے کہ ماس کمیونکیشن کا سلیکشن بورڈ اب دوبارہ ہوگا!!
لیکچرر منتخب ہونے والے ارکان اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کرتے ہیں، اور پھر ہمارا پرانا طویل عدالتی نظام۔۔۔ وہ اس چکی میں پستے ہیں رُلتے رہتے ہیں، تاریخیں ملتی رہتی ہیں، کبھی نمبر نہیں آتا تو کبھی اور کئی مسئلہ ہوجاتا ہے، انتہائی متوسط طبقے کے یہ پٹشنرز مرتے کیا نہ کرتے عدالتوں میں جوتیاں چٹخاتے رہتے ہیں اس دوران مشیر وزیراعلیٰ سندھ جناب وقار مہدی کو ایک درخواست بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں تو آپ اندازہ لگائیے کہ بتایا جاتا ہے کہ وائس چانسلر صاحب اسی وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر کو لفٹ نہیں کرا رہا، جس وزیراعلیٰ نے اسے وائس چانسلر لگایا ہے۔۔۔۔۔!!
اور اس طرح یہ غریب پٹشنر اس اقربا پروری کے سماج میں صرف میرٹ پر ہونے کا خراج ادا کرتے ہیں۔
اس درمیان کورونا کے سبب عدالتی کارروائیوں میں رخنہ بھی پڑتا ہے اور پھر خالد عراقی صاحب توہین عدالت کا شکار ہوکر عہدے سے ہٹا دیے جاتے ہیں اور ڈاکٹر ناصرہ قائم مقام وائس چانسلر بن جاتی ہیں۔ اس دوران 13مئی 2022ءکو اس سلیکشن بورڈ کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آجاتا ہے، جس میں سینڈیکیٹ کے دوبارہ سلیکشن بورڈ کرانے کے فیصلے کو مسترد کردیا جاتا ہے
لیکن قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ بوجوہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتیں، الٹا اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چینلج کردیا جاتا ہے، جہاں سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے ایک مہینے میں ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیتی ہے۔
ایک مہینے کے بعد یونیورسٹی کے وکیل معین اظہر ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ سینڈیکیٹ نے ایک تین رکن کمیٹی بنائی ہے، جو انجینئر جبار صاحب کی سربراہی میں قائم ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کے ایک معزز رکن باسط انصاری صاحب بھی ہیں، جن کے بھائی خود اس متذکرہ سلیکشن بورڈ میں منتخب نہیں ہو سکے تھے۔ خیر، سپریم کورٹ انھیں 15 دن دے دیتی ہے، پندرہ دن بعد یونیورسٹی اپنے وکیل معین اظہر ایڈووکیٹ کے ذریعے جواب جمع کراتی ہے کہ ان کی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ری انٹرویو ہوگا!!
ارے “عقل مندوں” بات تویہ ہے کہ سینڈیکیٹ کے ری انٹرویو کے فیصلے ہی کے خلاف تو سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے، مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ یونیورسٹی نے اسے انا کا مسئلہ بنا دیا ہے یا وہ چاہتی ہے کہ پوری سینڈیکیٹ توہین عدالت کی مرتکب ہو کر باہر جائے !
دوسرا یہ کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سینڈیکیٹ کو یہ کہا ہے وہ مئی 2019ء کو سلیکشن بورڈ کے میجورٹی ڈسیژن کے مطابق فیصلہ دے، اور سلیکشن بورڈ کی سفارشات اب باقاعدہ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کا حصہ ہیں، جس میں تمام امیدواروں کے سلیکشن بورڈ کے ‘اسکور’ بھی درج ہیں۔ اس لیے یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ اس سے صرف نظر نہیں کرسکتی۔
لیکن یہ بحث تو بعد میں ہوتی۔۔۔۔ معزز جج صاحب نے جب معین اظہر ایڈووکیٹ سے پوچھا کہ حضرت لائیے تو ذرا فیصلہ سینیڈیکٹ کا؟ تو موصوف بولے کہ سینیڈیکٹ تو نہیں کمیٹی کا فیصلہ ہے۔ معزز جج نے کہا کہ فیصلہ تو سینڈیکیٹ کو کرنا ہے جو زیادہ اراکین پر مشتمل ہوتی ہے، سینڈیکیٹ کیوں نہیں ہوا۔ تو معین اظہر بولے کہ سینڈیکیٹ نہیں ہے اور وہ مہینے میں ایک بار ہوتا ہے۔ جس پر معزز جج صاحبان نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ
کیا قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے کہ سینڈیکیٹ مہینے میں ایک دفعہ ہوگا۔ اور آپ ایک ہی سانس میں چار مختلف باتیں کر دیتے ہیں، آپ کتنے عرصے سے سپریم کورٹ میں پیش ہو رہے ہیں ، کیا آپ کو پتا نہٰں ہے کہ بات کس طرح کی جاتی ہے۔ جس پر معین اظہر کو متعدد بار جج صاحبان سے معذرت کرنا پڑی اور سات دسمبر 2022ءکو ہونے والی اس سماعت میں 10 روز میں سینڈیکیٹ بلوا کر اس فیصلے پر عمل کرنے کا حکم دیا اور سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
تو یہ ہے مختصر سی کہانی اورشہر کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے میرٹ پر آنے والے اساتذہ کا انجام۔۔۔ اور بغیر کسی سفارش اور کسی اعلیٰ سیاسی اور سماجی پس منظر کے منتخب ہونے کا بھاری خمیازہ۔۔۔
ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ان کے لاکھوں روپے کی بربادی اور چار قیمتی سالوں کا ضیاع اور اس کے بعد بھی اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں غیر سنجیدگی!
یعنی ان کا کراچی کا عام شہری ہونے کا جرم اتنا سنگین ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی عدالت اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اب بھی ٹال مٹول اور کوئی نہ کوئی رکاوٹ ڈالنے سے باز نہیں آرہی۔۔۔ آخر کیوں؟
اگر یہ حکم راں جماعتوں اور کسی اثر رسوخ والی لابی اور بڑے گھرانوں کے بچے ہوتے تو یقیناً انھیں یہ سب نہیں جھیلنا پڑتا۔ طویل عدالتی جنگ جیتنے کے سات ماہ بعد بھی انھیں پریشان اور ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی!
کیا ہی اچھا ہوکہ آئندہ جب بھی کراچی یونیورسٹی اسامیاں مشتہر کرے تو ساتھ میں لکھ دے کہ کوئی سیاسی وابستگی یا لابی کی سفارش ضرور لائیے، ورنہ خوامخواہ زحمت نہ کیجیے ، بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسامیاں اب مشتہر کرنے کی بھی کیاضرورت ہے۔ پیٹی بھائی، دوست یار، احباب اور رشتے دار ہیں ناں، انھی لوگوں کا تو حق ہے ان اسامیوں پر۔۔۔ بھلا یہ سیدھے لکھنے پڑھنے والے مڈل کلاس کے نوجوان کیوں کر یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ جامعہ کراچی جیسے بڑے تعلیمی ادارے سے بطور استاد وابستہ ہوں گے۔۔۔ آخر ان کے پلے میں میرٹ کے سوا ہے ہی کیا!!
اور ان کی قسمت کہ ان کے سلیکشن بورڈ کا سربراہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل خان ان کی سلیکشن کو سینڈیکیٹ سے منظوری کے بغیر اس دنیا سے چلا گیا اور کھیل کھیلنے والوں کا موقع مل گیا اور انھوں نے اپنا کام دکھا دیا اور اب بھی کسی نہ کسی طرح دکھا رہے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ ماس کوم کے ان منتخب ہونے والے لیکچررز سے یونیورسٹی اتنظامیہ ان سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اپنی اوقات میں رہو، اور اتنے بڑے خواب نہ دیکھو، ابھی تمھارے سیدھے ہونے اور میرٹ پر ہونے کی ایک قیمت ہے جو تمھیں ادا کرنی ہے۔
معزز اراکین سینڈیکیٹ جس میں بہت ہی معزز اساتذہ کرام اور دیگر معززان شہر بیٹھتے ہیں کیا وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ کیا وہ اپنی ذمہ داری اور فرض کے ساتھ کھڑے ہیں؟ تو کیوں سوائے ایک سے دو اراکین کے اختلاف کے پچھلی سینڈیکیٹ میں معزز عدالت کے فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا؟؟ کیوں معامل کو لٹکایا جا رہا ہے؟
غریب کیا تھکا دینے والی عدالتی جنگ جیتنے کے بعد بھی اگر خالی جیب رکھتا ہے تو اسی لائق ہے کہ رگڑا جاتا رہے اور میرٹ پر ہونے کے باوجود اپنے میرٹ کی دھجیاں اڑنے کا تماشا دیکھے، میڈیا کی لابیوں کا تماشا دیکھے، کیوں کہ وہ عام شہری ہیں، وڈیرے جاگیردار، بیورکریسی اور اعلی سرکاری اداروں سے کوئی نسبت نہیں رکھتے؟ یہی وجہ ہے یا او رکوئی بھی وجہ ہے تو آپ مجھے بتا کر عنداللہ ماجور ہوں!