تحریر: رضوان طاہر مبین
آج 21 نومبر 2024ءکو ہمیں روزنامہ ایکسپریس کا حصہ بنے ہوئے الحمدللہ 12 برس مکمل ہوگئے ہیں! کسی کی بھی زندگی میں بارہ برس ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، سو آج اسی مناسبت سے ذرا اس سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
21 نومبر 2012ءکا روزنامہ ایکسپریس، جس کے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر، گروپ میگزین ایڈیٹر احفاظ الرحمٰن، ریزیڈنٹ ایڈیٹر طاہر نجمی اور ایڈیٹوریل انچارج نادر شاہ عادل تھے، جس میں اُس روز کے اخبار میں عباس اطہر، عبدالقادر حسن، نصرت جاوید، اسد اللہ غالب، زاہدہ حنا، توصیف احمد خان، سعداللہ جان برق، ایس نیر کے ساتھ اتفاقاً ہمارا ’کالم‘ بھی شائع ہوگیا تھا، شاید اسی روز اخبارات کے چار صفحات بڑھا کر 16 کیے گئے تھے۔ یہی نہیں اس وقت ایکسپریس میں انتظار حسین، جاوید چوہدری، امجد اسلام امجد، مقتدا المنصور، طلعت حسین، سعید پرویز، کلدیب نیر، انیس باقر وغیرہ بھی کالم نگار اور شاہ زیب خان زادہ، طلعت حسین، جاوید چوہدری، ثنا ہاشمی اور عمران ریاض وغیرہ اہم ٹی وی میزبان تھے، بعد میں دو مرتبہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور ایک بار غریدہ فاروقی ’ایکسپریس نیوز‘ کا حصہ رہیں۔
ہمارے ساتھ بطور ’سب ایڈیٹر‘ زبیر نیازی بھی ’ایکسپریس‘ کے میگزین کا حصہ بنے تھے، جو غالباً سال بھر بعد ہی پھر ’ڈان نیوز‘ چلے گئے تھے، ہمارے شعبے میں اس وقت میگزین ایڈیٹر احفاظ الرحمن اور سنڈے میگزین انچارج عثمان جامعی سمیت نو افراد تھے، جن میں عبداللطیف ابو شامل، حمیرا اطہر، اقبال خورشید، ندیم سبحان، عارف عزیز اور ہمارے ساتھ آنے والے زبیر نیازی شامل تھے۔ البتہ حمیرا اطہر صاحبہ کا ساتھ بس تبرکاً ہی رہا، وہ کچھ ہی عرصے بعد چلی گئی تھیں۔
ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم احفاظ الرحمن کی آخری سلیکشن میں شامل رہے، اس کے بعد کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ جب کوئی نئے لوگ رکھے گئے ہوں، البتہ مرزا ظفر بیگ اور ندیم سبحان کی ایک بار چھوڑ کر دوبارہ آمد رہی۔
ہمارے شعبہ تو دراصل ’احفاظ الرحمن‘ تھا، جو لوگ احفاظ صاحب کی شخصیت سے واقف ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ انھوں نے فقط ڈیڑھ سال کا صحافتی تجربہ رکھنے والے اس نوآموز صحافی کے ساتھ کیا ”سلوک“ کیا ہوگا، باقاعدہ عثمان جامعی صاحب کو ہدایت تھی کہ ’بچوں کو ذرا رگڑا لگانا ہے!‘ یعنی چیلنج دینے ہیں، تاکہ یہ اس شعبے کے بلند تقاضوں کو سمجھ سکیں۔ اور ہوا کچھ یوں کہ شروعات میں انھوں نے ہماری اچھی خاصی کلاس لی، ان کے سامنے پروف اور مندرجات میں کوئی غلطی ہو جانا اپنی شامت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ہمارا طریقہ یہ ہوتا کہ صفحے کا پروف پڑھ لینے کے بعد ان کی میز پر منظوری کو پیش کیا جاتا اور یہ مرحلہ ’پل صراط‘ جیسا ہوتا تھا کیوں کہ پھر سوالات ہوتے تھے، یہ کیسے کیا اور یہ کیوں کیا؟ یہ کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لیے سینئر ساتھیوں نے بتایا کہ صفحہ بنوانے سے پہلے اس میں شامل مضامین کی سرخی اور ذیلی سرخیوں کو ایک صفحے پر لکھ کر احفاظ صاحب کو دکھا دیا جائے تو بہتر ہے، سو ہم بھی یہی کرتے، لیکن یہ بھی تو ایک امتحان ہوتا تھا، کیوں کہ وہ نئے موضوعات اور تخلیقی مندرجات پر بہت زور دیتے تھے۔ روایتی موضوعات اور گھسے پٹے مضامین کو وہ بہت سختی سے مسترد کر دیتے تھے، اس کے لیے ہدایت تھی کہ خوب مشاہدہ و مطالعہ کیجیے، کتابیں، فلمیں، اخبارات، انٹرنیٹ پر خبروں پر نظر رکھیے، اور پھر ان کا زور ہوتا کہ خود باہر جائیے، اور خود جا کر اپنے صفحے کے لیے فیچر اور انٹرویو کیجیے اس لیے ہمیں ہر لمحہ چوکنّا رہنا ہوتا تھا کہ کسی طرح روایتی مواد سے آگے نکل سکیں، لیکن کبھی کبھی کام یاب ہوتے تھے اور کبھی ظاہر ہے نہیں ہو پاتے تھے۔اس کے ساتھ زبان وبیان اور الفاظ پر ان کی جو گرفت ہوتی تھی تو پھر وہ الفاظ ساری زندگی کے لیے ہمارے ذہن میں گڑ گئے، جیسے چولھا دو چشمی ھ سے ہے چولہا نہیں ہے، ایسے ہی ’شُد بُد‘ میں دو چشمی ھ بالکل بھی نہیں ہے وغیرہ۔
انھی دنوں پھر یہ ہوا کہ ان کی آواز بیٹھی رہنے لگی، پھر پتا چلا یہ سرطان کے سبب ہے اور اس کے آپریشن کے بعد وہ 2015ءسے وہ لکھ کر گفتگو کرنے لگے تھے، اس وقت میں بھی ہم پر ان کی شدید برہمی آئی اور انھوں نے لکھ لکھ کر ہمیں خوب سنائی تھی۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ ایک جدید آلے کی مدد سے بولنے لگے اور پھر ہم بھی ان کی ’گڈ بک‘ میں آنے لگے، کہہ لیجیے کہ 2018ءمیں ان کے ایکسپریس سے استعفے تک کوئی دو سال وہ ہمارے ساتھ بہت خوش گوار رہے۔ 2017ءمیں اقبال بھائی ’دنیا‘ اخبار جانے لگے، تو ہمیں احفاظ الرحمن کی جانب سے انٹرویو نگار جیسا اہم ذمہ ملنا بلاشبہ ہماری صحافتی زندگی کا ایک بڑا سنگ میل اور ان کے اعتماد کا واضح اظہار تھا، جس پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔
٭٭٭