تحریر :ڈاکٹر ناصر شاہد
گذشتہ دنوں تیسری بار سندھ کے وزیرِ اعلیٰ بننے والے مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کو قابل رہائش شہر بنانے کے لیے 3 ارب ڈالرچاہئیں! وزیراعلیٰ نے ڈھٹائی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ بڑی جدوجہد کر کے کراچی کے نالے ٹھیک کروائے ہیں، ٹرانسپورٹ میں کافی کام کیا، گرین لائن بنائی اور اب ریڈ لائن اور یلو لائن پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے عہدے داران سے ملاقات کے دوران یہ بتایا کہ 20 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے 600 بلین روپے کی ضرورت ہے، گھروں کی تعمیر کے لیے ڈونر ایجنسیز، صوبائی اور وفاقی حکومت نے فنڈ دینا شروع کیے ہیں، گھروں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈھٹائی کی اگر کوئی تصویر ہوتی تو یقیناً وہ مراد علی شاہ سے مماثلت رکھتی کہ جس ڈھٹائی کے ساتھ وہ کھنڈر کراچی کے لیے منہ پھاڑ کر پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جو کراچی میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پندرہ برسوں میں پیپلزپارٹی کی وڈیرہ شاہی نے کراچی کا جو بیڑا غرق کیا ہے کہ یہاں لوگوںکی آمد صبح وشام جاری ہے، کراچی کے شہری اپنے بنیادی سیاسی حقوق تک سے محروم ہیں، ادھر وڈیرہ حکومت نے پہلے سے میسر وسائل بھی ہڑپ کرنا شروع کردیے ہیں، گنتی کی لال بسیں چلا کر اس کے ڈھنڈورے پیٹتے ہوئے شرم نہیں آتی، اوپر سے ان کے زرخرید صحافی اور میڈیا مالکان جو پیپلز پارٹی کے نام کی مالا جپتے رہتے ہیں، اور کسی میڈیا پر وڈیرہ شاہی کے خلاف کوئی خبر سننے یا پڑھنے کو نہیں ملتی! آخر ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ اخبارات پر بلاول زرداری کی تصاویر اور اس کے بے تکے بیانات کو ہمہشہ نمایاں کرکے چھاپا جاتا ہے اور کراچی کی حالت زار کی خبروں کو دبا دیا جاتا ہے؟ کیوں ٹی وی چینل پر پی پی وڈیرہ شاہی کے خلاف پروگرام نہیں ہوسکتا؟
آخر کراچی والوں کی آواز کہان سنائی دے گی؟
کراچی والے کب تک وڈیروں کے یہ لطیفے اور بکواس سنتے رہیں گے کہ انھیں کراچی کے لیے پیسہ چاہیے؟ اور کتنا پیسہ چاہیے کتنا ٹٰیکس ڈکاروگے؟ کیا وفاقی حکومت نشے میں ہے؟ اسے اپنا مال کھانے کے لیے کراچی دکھائی دیتا ہے، لیکن کراچی والوں پر پانی، بجلی اور گیس سے لے کر سڑکوں اور ان کی بنیادی آزادی جو سلب کی ہے اس پر وہ کیوں مداخلت نہیں کرتی، آخر کیوں کرگی، شاید یہ اسی کا ادھورا منصوبہ ہے جو اس نے سندھی وڈیروں کے آگے کراچی والوں کو نیم مردہ حالت میں باندھ کر پھینک دیا ہے!