تحریر: رضوان طاہر مبین
’سترھویں عالمی اردو کانفرنس‘ کے چار روز میں ہونے والی 65 مختلف نشستوں کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں صرف چھے پروگرام براہِ راست لفظِ ’اردو‘ سے آراستہ تھے، جن میں اردو میں فارسی کے رنگ، اردو فکشن، اردو تنقید، اردو کی نئی بستیاں، جاپان: اردو کی زرخیز سرزمین اور اردو نظم میں کراچی کا حصہ شامل ہیں، جب کہ ہم اسلوبِ غزل، دو عالمی مشاعروں اور قوالی کے علاوہ تقدیسی ادب کے روشن چراغ، داستان لکھنﺅ اور دبستان لکھنﺅ، یادِ رفتگاں، بچوں کا ادب، تھیٹر ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی کہانی، کراچی کے مزاح نگار، یارک شائر ادبی فورم، زہرا نگاہ، عمیر نجمی، علی زریون اور سلمان گیلانی کے لیے ہونے والی نشستوں کو بھی بالواسطہ اردو ہی سے متعلق کہہ سکتے ہیں۔ پانچ بیٹھکیں مختلف کتابوں کی رونمائی کے حوالے سے سجائی گئیں، اس کے ساتھ ہم وسیم بادامی اور تابش ہاشمی، ماہرہ خان، بشریٰ انصاری، عاصم اظہر، ہمایوں سعید کے علاوہ منور سعید، مصطفیٰ قریشی اور جاوید شیخ کی مشترکہ بیٹھک کو بھی اردو سے متعلق ہی سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ ان کا کام اردو زبان ہی میں ہے۔ یوں یہ کُل پروگراموں کی تعداد 40 تک کہی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف اس بار ’جشن کراچی‘ کے ذیلی عنوان کے تحت کراچی کی خصوصیت سے موضوعات کے ساتھ دیگر عنوانات بھی شامل کیے گئے، جن میں پاکستانی میڈیا بین الاقوامی تناظر میں، پاکستان میں میڈیا کی تاریخ، کراچی کل اور آج، شہر نامہ، کراچی معیشت کی شہہ رگ، کراچی کے نام وَر مصور، کراچی طلبہ تحریک (ولایتی بیٹھک)، ’کے ایم سی‘ 1843ءتا 2024ئ، تعلیم کی صورت حال، دنیا بدلتی خواتین، آبادی کی ناقص منصوبہ بندی، ماحولیات اور گلوبل وارمنگ، پاکستان اور ترکیہ کے ثقافتی و تجارتی رشتے، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی دوستی، شاہد آفریدی، اصلاح الدین، راشد لطیف اور کرکٹر جویریہ خان کے علاوہ تین عدد مکمل انگریزی میں لکھے گئے عنوان Dear Karachi، Artificial Intelligence & Digital Humanities، Governance of People’s Empowerment کی محافل بھی شامل تھیں۔ ساتھ ہی دیگر پانچ پاکستانی زبانوں کے حوالے سے بھی الگ الگ محفلیں منعقد کی گئیں، ان مختلف پروگراموں کا شمار 23 تک رہا۔ علاوہ ازیں آرٹس کونسل میں ہمہ وقت متحرک رہنے والے پروفیسر سحر انصاری دو پروگراموں میں بطور مقرر نام ہونے کے باوجود شریک نہ ہو سکے، انھیں حاضرین میں ضرور دیکھا گیا، جب کہ عارفہ زہرا، فہد مصطفیٰ، مسنتصر حسین تارڑ، سلیم کوثر، کے اعزاز میں خصوصی نشست ہونا تھیں، لیکن یہ لوگ بھی تشریف نہ لاسکے، پیرزادہ قاسم غالباً بیرون ملک ہونے کے سبب نہ آسکے، شکیل عادل زادہ، محمود شام کی بھی غیر حاضری درج کی گئی۔ ’کے ایم سی‘ والی نشست میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب ایک اہم مقرر تھے، لیکن افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر انھوں نے اِس پروگرام کی ناغہ کرلی!
سترھویں عالمی اردو کانفرنس میں اس بار 10 قراردادیں منظور کرائی گئیں، جس میں غزہ کے لوگوں سے یک جہتی اور کشمیر کے حقِ خودارادی کی تائید، آرٹس کونسل کی سرگرمیوں پر فخر، نوجوانوں کی سرگرمیوں، بین الصوبائی ثقافتی روابط کے فروغ کے علاوہ اسکو ل میں مادری زبان کے علاوہ ایک دوسری زبان سیکھنا اور اس کے ادب سے واقفیت لازمی قرار دینے کا مطالبہ ہوا۔ پاکستان کی تمام زبانوں کی ترقی اور فروغ میں سنجیدگی، کتابوں کی درآمد پر رعایت اور کاغذ کے نرخ کم کرنے کے لیے کارخانے لگانے کا مطالبہ بھی ہوا۔ نیز مطبوعہ اخبار کو زندہ کھنے کے لیے سیکڑوں کے بہ جائے منتخب خبریں تخلیقی انداز میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
جہاں تک ہمیں یاد ہے کہ تین سال پہلے تک ’عالمی اردو کانفرنس‘ کے ’منچ‘ سے ہر بار ملک میں نفاذِ اردو کا مطالبہ کیا جاتا رہا کہ آئین کی دفعہ 251 کے تحت فی الفور سرکاری سطح پر قومی زبان کا نفاذ کیا جائے۔ اس بار بھی اس قرارداد میں قومی زبان کے نفاذ کا مطالبہ جگہ نہ پاسکا، لیکن یہ اعزاز اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے حصے میں آگیا۔ یقیناً ایک آئینی عہدے پر متمکن شخصیت کا بے باکی سے قومی زبان اردو کو حق دلانے کی بات کرنا خوش آئند ہے۔ امید ہے کہ وہ عملاً بھی اس کی سعی کریں گے۔ انھوں نے کہا ملک میں اردو نافذ ہونی چاہیے، جب ہم انگریزی کی جگہ اپنی قومی زبان اردو پر فخر کریں گے تو ہی ترقی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ احمد شاہ کراچی والوں سے کہہ رہے تھے کہ اپنی تہذیب دکھائیں، جس شہر میں پانی بجلی گیس اور روزگار نہیں، وہ اس شہر میں ’جشن کراچی‘ کی تقریب میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ کیا تہذیب دکھائیں؟ ہمارے بچوں کو درست اردو لکھنے اور بولنی نہیں آتی، خود احمد شاہ صاحب کی اردو سن کر مجھے لگا کہ یہ کانفرنس سال میں دو بار ہونی چاہیے۔ اختتامی تقریب سے ڈاکٹر جعفر احمد نے کراچی کے حوالے سے مضمون پڑھا اور انور مقصود نے ’قائداعظم کا کراچی کے نام خط‘ سنایا، جس پر حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔
٭ گڈاپ سے حب چوکی تک!
کراچی آرٹس کونسل کی ’سترھویں عالمی اردو کانفرنس‘ میں طلبہ کی تعداد بھی نمایاں رہی، صدر آرٹس کونسل نے بھی بتایا کہ انھوں نے روہڑی اور مختلف دوسرے علاقوں سے طلبہ کو بلایا ہے۔ ہم نے سندھ یونیورسٹی اور قائد عوام یونیورسٹی کی بسیں دیکھیں، ایک جھلک اقرا یونیورسٹی کی بس کی بھی دیکھی۔ دیگر طلبہ سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ طلبہ کا تعلق سندھ لا کالج، جناح سندھ میڈیکل کالج، فیڈرل گورنمنٹ کالج اور سندھ لا کالج سے ہے۔ اس کے علاوہ یونیفارم پہنے ہوئے کچھ طلبہ نے بتایا کہ ان کا اسکول گڈاپ میں ہے، روایتی بلوچ لباس میں ملبوس بچیوں نے بتایا کہ وہ ’حب چوکی‘ سے آئی ہیں۔
٭ گر تو برا نہ مانے!
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’عالمی اردو کانفرنس ‘ کراچی آرٹس کونسل کا ایک سنگ میل اور مستقل مزاجی سے ہونے والا ایک اہم پروگرام ہے۔ اس میں خوب سے خوب تر کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور تجاویز پر غور کیا جانا چاہیے۔ راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بطور طالب علم ’دوسری عالمی اردو کانفرنس‘ کا رضا کار رہ چکا ہے۔ اس لیے اردو کانفرنس سے یہ ہمارا یہ لگاﺅ دو آتشہ ہے اور اس میں خلوص کے سوا کسی بھی دوسرے مقصد کو کوئی دوش نہیں۔ باقی ’ناقدین‘ کی تو ہمیں خبر نہیں، ہم فقط اردو کانفرنس کو سنوارنے کے واسطے کچھ کہنے کی جسارت کرتے ہیں، اگر ہمارے مقاصد کچھ اور ہوتے تو یقیناً ہم باقی سال بھی نکتہ چینی کی توپیں سنبھالے رہتے، سو ہماری رائے خلوص دل سے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ پہلی عرض یہ ہے کہ کچھ برسوں سے اس میں ایسے موضوعات شامل ہو رہے ہیں، جن کا اردو سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ دیگر ادبی میلوں کے ساتھ خود آرٹس کونسل بھی ملک کے طول وعرض میں ’پاکستان لٹریچر فیسٹول‘ جیسے بڑے پروگرام کرائے، کراچی میں بھی اردو کانفرنس سے قبل ایک بہت بڑا بین الاقوامی ثقافتی میلہ ختم ہوا ہے، سو ’عالمی اردو کانفرنس‘ میں تو کم از کم ایسے موضوعات اور ایسے پروگرام ہونے چاہیئں جو صرف اردو کی تخصیص رکھتے ہوں اور دیگر ادبی وثقافتی کانفرنسوں جیسی یک سانیت نہ رکھتے ہوں۔ ہر چند کہ آپ سالانہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ کو پانچ کے بہ جائے سہ روزہ کرلیجیے، لیکن اس کے موضوعات صرف اردو ہی کے تعلق سے ہونے چاہئیں۔ شاید ہر سال کانفرنس ہونے سے موضوعات کے چناﺅ میں دشواری ہو رہی ہو تو ایسے بے شمار موضوعات ہیں، جن پر بہت آسانی سے اردو کے تعلق سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس میں اردو کے ماہرین، اساتذہ اور محققین کو لازمی شریک مشاورت کرنا چاہیے، نوجوانوں اور بچوں کو اردو تہذیب وتمدن سے روشناس کرانا چاہیے، ان کے لیے اردو بول چال، تلفظ، املا اور درست زبان کے حوالے سے دل چسپ انعامی مقابلوں کی کمی ہمیشہ سے محسوس ہوتی ہے، اس مرتبہ دبستان لکھنﺅ جیسی دبستان دلی، دبستان حیدرآباد وغیرہ جیسے موضوعات بھی مختلف حوالوں سے شامل ہو سکتے ہیں۔ اردو گیتوں کے بول کے حوالے سے گفتگو ہو سکتی ہے، اردو کی تخلیقی تحریروں اور تفریحی مکالموں کی زبان اور اشتہاروں میں اردو رسم الخط کے بہ جائے رومن اختیار کیے جانے پر نشست ہونی چاہیے، اردو تدریس کی صورت حال اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اردو کے حوالے سے مختلف مواد، امکانات اور خدشات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
Categories