سمے وار (خصوصی رپورٹ)
گذشتہ دنوں نوجوان ’ویڈیو نگار‘ یاسر سہروردی کی ہندوستانی بادام فروش کے مشہور ہونے والے گیت ”بادام بادام کچا بادام‘ ‘کو ایک ناصحانہ گیت ”رمضان، رمضان آیا رمضان رمضان“ کرکے بنانے پر کئی لوگوں کو اعتراض کرتے ہوئے دیکھا، تو یکایک خیال آیا کہ
ہمارے ہاں نہ جانے کیوں مشہور گانوں کی دھن اور طرز پر نعتیں اور مذہبی کلام پڑھنے کا چلن کوئی نیا تو نہیں ہے۔
٭ ”اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا“
امجد فرید صابری کی آواز میں یہ مشہور ومعروف نعت آپ نے بھی بہت سنی ہوگی ”اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا“ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی طرز لتا منگیشکر کے گانے ”بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا جب یاد میری آئے ملنے کی دعا کرنا!“ سے مستعار لی گئی ہے۔
٭ ”کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں“
امجد فرید صابری ہی کا مقبول عام ’التجائیہ‘ کلام ”کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں،الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں!“بھی لتا اور رفیع کے ایک گانے ”آواز دے کے ہمیں تم بلا و¿، محبت میں اتنا نہ ہم کو ستاﺅ!“کی طرز پر پڑھا گیا ہے۔
٭ جہاں روضہ پاک خیر الوریٰ ہے
مشہور و مقبول اور عہد ساز نعت خواں قاری وحید ظفر قاسمی کی پڑھی گئی خوب صورت نعت ”جہاں روضہ پاک خیر الوریٰ ہے، وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟“ پاکستانی کلاسیکی گائیک مجیب عالم کے نغمے ”ذرا تم ہی سوچو، بچھڑ کے یہ ملنا، محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے!“ کی طرز پر پڑھی گئی ہے۔
٭چلتے چلتے
شہباز قمر فریدی کی ایک اور نعت بھی ہماری سماعت سے گزری، جس کے بول تھے ”میری بات بن گئی ہے، تیری بات کرتے کرتے“ جو واضح طور پر لتا ہی کے ایک معروف گانے ’یونہی کوئی مل گیا تھا، سرِ راہ چلتے چلتے“ پر ہے۔
Categories