تحریر: اختر شہاب
ملک کے علمی ادبی اور صحافتی حلقوں میں جب کبھی مظلوم قومیتوں کے حقوق اورجاری ناانصافیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس میں بنگالیوں، بلوچوں اور دیگر مظلوم قومیتوں کا تو ذکر کیا جاتا ہے، لیکن مہاجر قوم پر نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے ہونے والے مظالم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔مہاجروں کی محرومی، ان کے حقوق کی پامالی اوران کے ساتھ کے جانے والے سلوک کی داستان بہت طویل ہے۔لیکن ہم اپنے اس مضمون میں صرف ان متعصبانہ سلوک کا ذکر کریں گے جو ایم کیو ایم کے قیام سے قبل مہاجروں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔
مہاجروں سے متعصبانہ سلوک کی ابتدا قیام پاکستان کے بعد سے سندھ کے کچھ سیاست دانوں نے کی تھی جن میں ایوب کھوڑو اور قاضی فضل اللہ کا نام نمایاں تھا۔ خان ظفر افغانی اپنی کتاب تعصب،تشدد اور تضاد میں لکھتے ہیں”آٹھ جنوری کو سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے کہا تھا کہ سندھ میں ملازمتوں،زراعت اور تجارت کے شعبوں میں گنجائش کم ہے۔اس لیئے اب ہمیں سندھ میں مہاجروں کے مزید داخلے کو کسی نہ کسی طرح روکنا ہوگا۔
اکیس دسمبر 1947 کو سندھ کے وزیر اعلی ایوب کھوڑو نے یہ بیان دیا تھا کہ جو مہاجر گھر خریدنے اور کاروبار شروع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سندھ میں تشریف نہیں لائیں۔
واضح رہے کہ یہ وہی ایوب کھوڑو تھے، جنھوں نے مہاجروں کی ٹرین کے انجن پر فائرنگ کرکے اپنی پولیس فورس سے کہا تھا کہ اس کو واپس بھیجو۔اس واقعے کے بعد قائد اعظم بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے کراچی، ٹھٹھہ اور لسبیلہ پر مشتمل علاقے کو سندھ سے الگ کرکے علاحدہ حیثیت دی اور اس کو ’فیڈرل ٹیرٹری آف کراچی‘ کا نام دیا۔ اس کا انتنظام چیف کمشنر کے ماتحت تھا۔
10 جون 1948ءکو سندھی قوم پرستوں نے فریاد سندھ کے نام سے ایک رسالہ سندھ بھر میں تقسیم کیا جس میں وفاقی حکومت اور مہاجروں کے خلاف اشتعال انگیز باتیں تھیں۔
15 جنوری 1949ءکو ایک مقامی ہفتہ وار اخبار میں ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں سندھی قوم پرستوں کی طرف سے مہاجروں کی سندھ آمد پر سوال اٹھایا گیا تھا اورایک نعرہ اس میں لگایا گیا تھا کہ سندھ صرف سندھیوں کا ہے۔
آٹھ جون 1948 کو لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ پاکستان صرف مسلم اکثریتی علاقوں کا نہیں، بلکہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کا وطن ہے۔ لیاقت علی خان کی زندگی میں تو ہندوستان کے مسلمان پاکستان آتے رہے، لیکن جیسے ہی لیاقت علی خان کا قتل ہوا تو ہندوستان کے مسلمانوں پر سرحدیں بند کردی گئیں اور یوں اس نظریہ کی نفی کردی گئی کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کا وطن ہوگا۔ خواجہ ناظم الدین نے ہندوستان کے مسلمانوں پر سرحدیں بند کرنے کی مخالفت کی تو ان کو برطرف کردیا گیا۔
مہاجروں کے پڑھے لکھے طبقے نے پاکستان کو چلانے کے لیئے بڑی محنت سے مربوط مشینری(بیوروکریسی) ترتیب دی تھی، اس وقت دارالحکومت کراچی تھا۔ پھر یہ ہوا کہ صدر ایوب خان نے بیوروکریسی کے انتہائی قابل اور ایمان دار سینکڑوں مہاجر افسران بہ یک جنبش قلم برطرف کر دیا۔
ایوب خان نے اس پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ کراچی جس کو قائداعظم نے دارالحکومت قرار دیا تھا، اس کے بہ جائے اسلام آباد کو دارالحکومت قرار دیا۔ ایوب خان نے صرف ایک ماہ کے نوٹس پرجب پاکستان میں انتخابات کرنے کا اعلان کیا، تو مہاجروں نے بھرپور طریقہ سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی، مگر جب انتخابات کے نتیجے کا اعلان ہوا تو فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔چار جنوری 1965 کو گوہر ایوب صاحب نے کراچی میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کیا اور سرحد سے ہزاروں لوگوں کو ٹرکوں کے زریعے کراچی میں جمع کر لیا۔ ان لوگوں نے گوہر ایوب کی سربراہی میں فتح کا جشن منانے کے لیئے مختلف علاقوں میں جلوس نکالا۔ان لوگوں کا اصل مقصد مہاجر قوم کو سبق سکھانا تھا کیونکہ انہوں نے ایوب خان کی مخالفت کی تھی۔ان کو اس بات کی سزا دینی تھی۔چنانچہ ان غنڈوں نے سرکاری سرپرستی میں گولی مار‘ لیاقت آباد اور ناظم آباد کی آبادیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، جب کہ ان علاقوں کے لوگوں نے بار بار اپیل کی تھی کہ ان غنڈوں سے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ لیکن کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے انھوں نے جھگیوں کو آگ لگا دی اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو بھی پتھراو¿ کر کے روک دیا گیا۔لوگ جان بچانے کے لئیے بھاگنے لگے تو بلوائیوں نے انہیں مارا۔ اس سانحے میں درجنوں مہاجر شہید ہوئے، جب ملک میں نام نہاد جمہوریت آئی تو مہاجروں پر مظالم کا سلسلہ اور بڑھ گیا۔سندھ کے اندر لسانیت کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی . سندھ میں ان کے ٹیلینٹڈ کزن ممتاز بھٹو نے لسانی بل پیش کیا.اور سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان بنادیا گیا، اس لسانی بل کے بعد سندھ بھر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے۔ اندرون سندھ میں مہاجروں کا بدترین قتل عام ہوا۔ لاڑکانہ، قمبرعلی خان،شہدادکوٹ، دادو،سہون اس وقت مہاجر اکثریتی شہر کہلاتے تھے، وہاں سے مہاجروں کو ان کی جائیدادیں اور زمینیں چھین کر بے دخل کر دیا گیا۔ لاڑکانہ میں تو اتنے مہاجر تھے کہ بلدیاتی انتخابات میں وہاں کا میئر مہاجر منتخب ہوتا تھا۔لیکن مہاجروں سے تعصب پر مبنی سلوک اور دھمکیوں کی وجہ سے ہزاروں مہاجروں کو لاڑکانہ چھوڑنا پڑا۔واضح رہے یہ اس دور کی باتیں ہیں جب ایم کیو ایم کا وجود بھی نہیں تھا۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں جب مہاجروں نے لسانی بل کے خلاف مظاہرہ کیا تو پیپلز پارٹی کی ظالم حکومت کے حکم سے درجنوں مہاجروں کو شہید کردیا گیا۔ان کی قبریں لیاقت آباد میں آج بھی موجود ہیں اور عوام آج بھی ان کو شہدائے اردو کے نام سے یاد کرتی ہے۔
بھٹو کے دورمیں بڑی بڑی فیکٹریاں،کارخانے،بینک، انشورنس کمپنیاں مہاجروں کی ملکیت تھیں، لیکن بھٹو نے نیشنلائزیشن کے نام پر مہاجر سرمایہ داروں سے ان کی صنعتیں چھین لیں۔بھٹو نے پھر بیوروکریسی کے انتہائی قابل اور ایمان دار ہزاروں مہاجر افسران کو بیک جنبش قلم برطرف کردیا۔ بھٹو نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مہاجروں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھنے کے لیئے دیہی اور شہری کی بنیاد پر کوٹا سسٹم نافذ کرکے سرکاری ملازمتوں کا دروازہ مہاجروں کے لیے بند کر دیا۔
بھٹو نے تعلیمی اداروں میں بھی کوٹا سسٹم نافذ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہی سندھ سے آرٹس میں ’سی‘ گریڈ میں پاس کو میڈیکل کالج میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر داخلے ملے. جبکہ شہری علاقے میں اے گریڈ سائنس میں پاس میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم رہتا۔ 1973ءمیں 10سال کے لیے نافذ ہونے والا کوٹا سسٹم چالیس سال کے باوجودآج بھی نافذ ہے، لیکن اس کے خلاف پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو پی، تحریک انصاف، اے این پی یا کسی بھی جماعت نے آوازنہیں اٹھائی۔
کوٹا سسٹم کے نفاذ کے بعد اخبارات میں نوکریوں کے اشتہارات میں تو یہ لکھا آتا تھا کہ کراچی حیدرآباد اور سکھر میں رہنے والے نوکریوں کے لیے درخواست نہ دیں۔واضح رہے کہ الطاف حسین نے 1979میں کراچی یونیورسٹی میں یونین الیکشن کے موقعے مخالفین کے اعتراضات پر وہ تمام اخبارات دکھائے تھے، جن میں ان نوکریوں کے اشتہارات تھے، جس میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نوجوانوں کو زحمت نہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ فارم بھی دکھایا گیا تھا، جس میں نہ صرف درخواست گزار اور اس کے باپ کا نام بلکہ دادا کا نام ہی نہیں، بلکہ ان کی جائے پیدائش بھی پوچھی جاتی تھی۔
بھٹو نے مہاجر قوم کے ساتھ مزید ذیادتی کرتے ہوئے مردم شماری میں بھی دھاندلی کی۔ بھٹو دور کے سیکرٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے تحریری طور پر اعتراف کیا تھا کہ 1972 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 65 لاکھ تھی لیکن بھٹو کے حکم سے یہ آبادی صرف 35 لاکھ ظاہر کی گئی تاکہ کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو محدود رکھا جائے اور کراچی کو ملنے والے فنڈ میں کمی کی جاسکے۔حیرت کی بات ہے کہ اندرون سندھ مختلف شہروں کی آبادی میں کئی سو گنا اضافہ دکھایا گیا لیکن کراچی کی آبادی میں صرف 89 اضافہ دکھایا گیا۔
بانیان پاکستان کی اولادوں کے ساتھ ہمیشہ ہتک آمیز رویہ رکھا گیا۔ان کو مختلف نفرت انگیز ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ مہاجروں کو بھیا، مٹروا، کالو، تلیر، ہندوستانی، مکڑ، غیرملکی، پناہ گزین اور ہندوستان کے بھگوڑے تک کہا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ مہاجروں سے ووٹ لینے والی جماعتوں نے کبھی مہاجروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرنے کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ جب مہاجروں نے یہ دیکھا کہ وہ جن جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں وہ مہاجروں کے حقوق کے لیئے آواز نہیں اٹھاتیں تو انہوں نے اٹھارہ مارچ 1984کو الطاف حسین کی قیادت میں اپنے حقوق کے لیے ایم کیو ایم بنائی۔
سمے وار ڈوٹ کوم پر مضامین بھیجنے کے لیے ای میل:
samywar.com@gmail.com