تحریر : سعد احمد
21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دنوں کا مادرزاد زبانوں کا عالمی دن بنا دیا جاتا ہے، ایک حلقے کی جانب سے بابائے قوم پر تنقید کی جاتی ہے کہ انھوں ںے بنگالیوں پر بڑا ظلم کیا جب فروری 1948 میں جب اردو کو واحد سرکاری زبان کہا۔۔۔
تو عرض یہ ہے کہ قائداعظم نے ریاستی زبان کے لیے اردو تجویز کی تھی، جو تاریخی اور منطقی اعتبار سے بالکل درست فیصلہ تھا کیوں کہ اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جو ریاست کے سب نہ سہی زیادہ بڑے حصے کے لیے آسان تھی۔۔۔
بنگالی یا اور کوئی زبان اس کی جگہ نہیں لے سکتی تھی۔
پھر جب اتنے رو پیٹ کر ایک قوم ایک زبان کے نام پر نیا ملک لے لیا تو پھر اردو سے نفرت کا سوائے اپنی خواہش کے کوئی جواب نہیں ہے۔۔۔۔
دوسری ضمنی اور ہم بات یہ ہے کہ قائد نے تو بنگال سمیت ہر صوبے کو کہا تھا کہ وہ اردو کے ساتھ اپنی زبان بھی رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ تو یہ کہنا کہ بنگالی چھین لی تھی یا بنگالی کو رد کیا تھا، تاریخی حقائق کے برعکس ہے۔۔۔
1952 میں بنگالی طلبہ پر گولی چلا کر نہایت مکروہ فعل کیا گیا تھا، یہ بات بالکل درست ہے۔۔۔
لیکن اس غلطی کے باوجود اردو تقسیم پاکستان کی وجہ قطعی نہیں تھی۔۔۔
کیوں کہ 1956 اور پھر 1962 سے ہم اردو اور بنگلا دونوں زبانیں مان بھی چکے تھے۔۔۔۔ 1971 تک بھی اردو کے ساتھ بنگالی ہماری قومی زبان تھی
لیکن مشرقی پاکستان پھر بھی الگ ہوگیا۔۔۔۔ یعنی 16 سال پہلے بنگالی زبان مان لی گئی تھی پھر بھی الگ ہوا۔۔۔
اس کا اصل محرک ہماری ان سے ناانصافی اور تعصب تھا، ہم نے انہیں تسلیم نہیں کیا، ان کے حقوق غضب کیے۔۔۔
اصل بات بس یہی ہے، لیکن آج کے دن اور جب بھی بنگلا دیش کا ذکر ہوتا ہے ہم اردو بنگلا کا ذکر کرکے اصل محرکات کا حق ادا نہیں کرپاتے۔۔۔ کہ زبان نہیں بلکہ ہماری ناانصافی نے بنگالیوں کو ہم سے دور کیا۔۔۔۔
Categories