ممتاز دانش ور جناب حکیم محمد سعید کی شہر قائد پر 1990 کی دہائی کی ایک یادگار تحریر:
میرا شہر کراچی بھی کبھی جنت تھا۔ آج سیاست دانوں نے اسے دوزخ بنا دیا ہے۔ کراچی کے حالات سے ساری دنیا پریشان ہے۔ جس ملک میں جاتا ہوں ہر آدمی پوچھتا ہے کراچی کا کیا حال ہے! میں شرمندہ ہو کر خاموش ہو جاتا ہوں۔ میری آنکھیں خشک ہوتی ہیں، دل میرا روتا ہے۔ میرا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ہوائی جہاز میں آج کا اخبار گلف نیوز (Gulf News) میں نے پڑھا۔ یہ عرب دنیا کا بہت اہم اخبار ہے۔ اس اخبار کا اداریہ بھی ذرا پڑھ لو کہ عرب دنیا ہمیں آج کس نگاہ و انداز سے دیکھ رہی ہے:
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے امن و سالمیت کی بحالی کے لیے ’ایم کیو ایم‘ کو مذاکرات کی جو پیش کش کی ہے، اسی صورت میں کام یاب ہوسکتی ہے کہ وہ اس نیم فوجی طاقت کو جو اورنگی ٹا¶ن قصبہ کالونی میں مٹھی بھر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے متعین ہے، طاقت استعمال کرنے سے روک دیں، کیوں کہ اس صورت حال سے وہاں کی ڈیڑھ لاکھ آبادی کرب و اذیت سے دوچار ہے۔ گزشتہ جمعرات سے کراچی کے اس نواحی علاقے میں محاصرے کی سی کیفیت ہے دکانیں بند ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ وہاں رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اگر محاصرہ ختم نہ کیا گیا، تو لوگوں کے بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہے۔ دوائیں نہ ملنے کی وجہ سے نہ معلوم کتنے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
شہر کے لسانی اور سیاسی تشدد کے نتیجے میں سیکڑوں جانیں پہلے ہی جا چکی ہیں۔ گزشتہ مہینے 334 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر نیم فوجی ایجنسیاں قصبہ کالونی کو بدستور محاصرے میں لیے رہیں اور لوگ مرنا شروع ہوئے تو یہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔
بے نظیر حکومت نے دوہری چال چلی ہے ایک طرف وہ امن بحال کرنا چاہتی ہیں اور دوسری طرف وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی بھی کر رہی ہیں۔ شام کے چھے اردو اخبارات پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے جو پابندی لگائی گئی تھی کہ وہ کراچی کے بحران کے بارے میں سنسنی خیز خبریں شایع کر رہے ہیں، بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی۔ کیوں کہ پاکستان کے تمام اخبارات جن کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے، اس پابندی کے خلاف کل ایک روزہ ہڑتال کرنے والے تھے اگر ان اخبارات نے جن پر پابندی لگائی گئی تھی، حکومت کے بقول صورت حال کو خراب کیا تھا۔ تو اس کی اصل ذمے داری خود حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے بروقت کارروائی نہیں کی اور کراچی میں خون خرابے کو روکنے کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا۔
اب بے نظیر کی طرف سے امن کی تحریک باقاعدہ حزب اختلاف میاں محمد نواز شریف کی طرف سے ایسی کوئی کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی تاوقتے کہ قانون نافذ کرنے والے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے میں سمجھ بوجھ سے کام لیں اور شہری آبادی کے مصائب کا احساس کریں۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم کو مذاکرات کی جو پیش کش کی ہے اور اس کا خودساختہ جلاوطن الطاف حسین نے خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی کی یہ تجویز بھی قبول کرلی ہے کہ کراچی کی صورت حال پر بحث کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ اس اجلاس میں ایم کیو ایم کا نکتہ نظر بھی سنا جا سکے گا کیوں کہ سینیٹ میں اس کی نمایندگی ہے اگرچہ ایوان زیریں میں نہیں۔
دریں اثنا نواز شریف 10 جولائی کو کراچی میں آل پارٹیز کانفرنس بلانا چاہ رہے ہیں۔ اتوار کو نواز شریف نے صورت حال سے نمٹنے میں حکومت کی نااہلی پر شدید نکتہ چینی کی تھی۔ اس لیے حکومت یہ غور کر رہی ہوگی کہ آیندہ چند روز میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے کچھ ایسے جرا¿ت مندانہ اقدامات کیے جائیں کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والی نکتہ چینی سے بچا جاسکے۔
بے نظیر کراچی کے مسئلے پر پہلے ہی بہت وقت ضایع کرچکی ہیں اور اگر جمعرات کو ایم کیو ایم سے مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں تو اسے قیام امن کی راہ میں ایک عملی قدم ہونا چاہیے۔
’ایم کیو ایم‘ ایک طاقت ور لسانی جماعت ہے جسے ملک کی سیاسی زندگی میں اپنا مقام حاصل کرنے کا حق ہے۔ بے نظیر نے اس کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے ایم کیو ایم کے انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، جنھوں نے شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ تشدد اور خوں ریزی کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امن کے ان مذاکرات کو کام یاب ہونے اور ’ایم کیو ایم‘ کو ملک کی سیاسی زندگی میں حصہ لینے کا بھرپور موقع دیا جائے۔“
میرے عظیم نونہالو! تم ایک نکتہ یاد رکھنا۔ میں خوب جانتا ہوں کہ تم اپنے اسکول میں جو کتابیں پڑھ رہے ہو اس اعتبار سے ناقص ہیں کہ ان میں تم کو اسلامی تہذیب، اسلامی تمدن، اسلامی ثقافت کا کوئی درس نہیں مل رہا ہے۔ پھر جو استاد تم کو پڑھا رہے ہیں ان بے چاروں کو خود اسلامی تہذیب و تمدن کا کوئی علم نہیں ہے۔ نہ وہ اسلامی ثقافت کو جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ان بدقماش سیاست دانوں کا قصور ہے جن کے نزدیک تعلیم پہلی نہیں آخری چیز ہے۔ تعلیم کا محکمہ گزشتہ چار دہائیوں سے نااہل لوگوں کے سپرد ہے۔ وزارت تعلیم، جہاں تعلیم کا نصاب اور نظام بنتا ہے اس میں بیورو کریٹوں کی خریداریاں ہوتی ہیں۔ دشمن خریدار پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت کبھی نہیں آنے دے گا۔ دشمن پورے تسلسل کے ساتھ اور پوری مکاری اور مہارت کے ساتھ نصاب تعلیم کو ایسا رکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے نونہال کو اور نوجوان کو اپنی تاریخ کا ہوش نہ آنے پائے۔ پاکستان کا نصاب تعلیم یورپ اور امریکا کو اہم بناتا ہے۔ وطن کے نونہال امریکا اور یورپ کو بڑا پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔
Categories