تحریر: رضوان طاہر مبین
کل ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کی تیسویں برسی گزری، عظیم احمد طارق کا شمار ‘ایم کیو ایم’ کے صف اول کے راہ نمائوں میں ہوتا تھا۔ انھیں قائد ایم کیو ایم کے بعد سب سے بڑا درجہ حاصل تھا، ان کے ساتھ اس وقت کے جنرل سیکریٹری اور بعد میں کنوینئر بننے والے ڈاکٹر عمران فاروق کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی، یہ تین پوری “ایم کیو ایم” کے بنیادی ستون تھے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ 1991 کے تنظیمی بحران اور اس کے بعد فوجی آپریشن کے نتیجے میں جب ایم کیو ایم کی قیادت روپوش ہوئی تو کسے معلوم تھا کہ تنظیم تو شاید اتنے جلدی ختم نہ ہوسکے، لیکن اب دوبارہ کبھی ایم کیو ایم کی قیادت یا کم سے کم یہ تین راہ نما یک جا نہ ہوسکیں گے، ہوا یوں کہ عظیم احمد طارق 1992 کے آخر میں بڑے عجیب وغریب حالات میں منظر عام پر آئے، فوجی آپریشن، حقیقی کے تصادم اور بدترین جبر کے ماحول میں انھوں نے اپنے تئیں تنظیم کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن ان کی یہ کوشش کام یاب نہ ہوسکی، انھوں نے تنظیمی قیادت (جس کی توثیق الطاف حسین لندن سے کرچکے تھے) دوبارہ لندن کے حوالے کی اور گرفتار ہوگئے اور پھر یکم مئی 1993 کو انھیں اپنے سسرال میں گھس کر بہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ یہ قتل بھی ایک معما ہے اس وقت کی ریاستی مشینری نے اس کا الزام الطاف حسین پر عائد کیا، پھر عام طور پر یہ سوال بھی تھا کہ فیڈرل بی ایریا کے کسی گھر میں گھس کر مارجانا اور مبینہ طور پر گھر کو اندر سے کھولا جانا یہ سب ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، الزام تراشی اور زبانی کلامی باتوں سے بات آگے نہ بڑھ سکی، نتیجتاً آج بھی وہی سوالات موجود ہیں، جو 30 برس پہلے تھے۔
ادھر ڈاکٹر عمران فاروق 1999 تک مسلسل روپوش رہے اور پھر کبھی کراچی میں منظر عام پر نہ آسکے، بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے حلیہ بدل کر زیر زمین کراچی میں تنظیم کی قیادت کی تھی، 1999 میں وہ کسی طرح لندن پہنچنے میں کام یاب ہوگئے اور سب کو حیران کردیا، وہاں ان کے الطاف حسین سے علاحدگی کی افواہوں کی تردید ہوگئی، انھیں ایم کیو ایم کا کنوینئر بنایا گیا، تاہم دوسری بار تنظیمی عہدے سے معطلی کے دوران وہ 2010 میں پراسرار طور پر قتل کردیے گئے، عظیم طارق کی طرح ان کے قتل کا الزام بھی الطاف حسین اور ان کے رفقا پر عائد ہوا، لیکن نتیجہ لگ بھگ عظیم طارق جیسا ہی نکلا، ان کی طرح کچھ ملزمان گرفتار ہوئے، تاہم کچھ ملزمان اسی الزام میں زیرحراست ہیں۔
اب “ایم کیو ایم” کے تین مرکزی راہ نمائوں میں صرف الطاف حسین واحد حیات راہ بر باقی رہے ہیں، وہ بھی اس قدر تنظیمی بحران میں ہیں کہ گذشتہ 7 برس سے پاکستان میں ان کی تنظیم پر مکمل پابندی ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کے نام لیوائوں پر مکمل اور کڑی پابندی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ 24 سال بھی انھوں نے اپنی سحر انگیزی کے ذریعے تنظیم چلا لی، بنا کسی خاندانی عہدے دار کے پاکستانی سیاست میں یہ کسی معجزے سے کم تو نہیں، ورنہ ریاستی چھیڑ خانی میں کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے کہ جس کے بڑے بڑے دھڑے نہ بنے ہوں، بھٹو اور شریف خاندان تک کو خاندانی سیاست کے باوجود ایسے بحران سہنے پڑے، لیکن اب فرق واضح ہے کہ ایم کیو ایم کو پاکستانی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ اور کڑے ترین ریاستی آپریشن سے گزری اور گزر رہی ہے۔ فوجی، پولیس اور رینجرز کے آپریشنوں کے ماہ وسال آپ خود ہی ماپ لیجیے۔۔۔
یہاں ہمارے خیال میں کل سے ایک خیال آرہا ہے کہ ناقدین “ایم کیو ایم” کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کراچی اور مہاجر قوم کے سارے مسائل کا سرچشمہ اور منبع قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایم کیو ایم اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی، اس کا فیصلہ تو کوئی کھلا مکالمہ اور کھلا مقدمہ اور عدالت ہی کرسکتی ہے، جو چاہے کھلے ذہن کے افراد کی عدالت ہی میں کیوں نہ ہو، بہرحال، کہنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کی سیاست میں نوجوانوں کی یہ نئی امنگ اور تبدیلی مکمل جمہوری اور سیاسی تھی، تینوں مرکزی راہ نمائوں کا حال، قتل یا جلاوطنی کا سبب کسی نہ کسی سبب ریاستی جبر، آپریشن اور مداخلت ہی ہے۔
کاش کراچی میں ‘ریاست’ صرف اپنی عمل داری تک محدود رہتی، سیاسی چھیڑ چھاڑ نہ کرتی اور ایم کیو ایم کی قیادت منتشر نہ ہوتی تو آج منظر نامہ کتنا مختلف ہوتا !!
کیا ہم اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ قوتوں نے اپنی من مانی سیاست کرنے کی ضد میں مہاجر قوم اور کراچی کے سیاسی شعور سے لے کر قومی سیاست تک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔۔۔
اگر ایم کیو ایم پر ریاستی جبر نہ ہوتا اور اسے سیاسی طور پر اپنا کام کرنے دیا جاتا اور ریاست صرف مجرمانہ امور پر گرفت کرتی اور سیاست کو سیاسی طور پر جاری رہنے دیتی تو کراچی سے لے کر اسلام ۤآباد تک کا منظر نامہ کتنا مختلف ہوسکتا تھا۔۔۔ کاش کوئی سوچے تو سہی۔۔۔
لیکن نہیں، ہمیں یقین ہے کہ سوشل میڈیا اور مرکزی ذرایع ابلاغ کے اس بلیک آئوٹ اور پروپگینڈے کی منہ زوری میں ہمارے اس نقطہ نظر کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن حرج کیا ہے، ایک دفعہ سوچ لیجیے ایک دفعہ کراچی کے عام سیاسی کارکنوں کے شعور سے اٹھتے ہوئے ان تین نوجوانوں کو دیکھیے، جن کی پشت پر کوئی وڈیرہ شاہی اور کوئی جاگیرداریت نہیں، اگر یہ کوئی کام یاب سیاسی نظیر بن جاتے، تو میرے دیس میں کیا کوئی بہتری نہیں ہوسکتی تھی، اگر یہ جلاوطن، قتل اور منتشر نہ ہوتے، اگر انھیں تقسیم اور جبر کے ذریعے مختلف خانوں میں نہ بانٹا جاتا تو منظر نامہ کیسا ہوتا۔۔۔
لیکن کون سوچے؟ ہمیں سوچنے کے لائق چھوڑا گیا ہے؟ الزامات، غداری، ملک دشمنی اور وغیرہ وغیرہ الزامات کے شور میں کوئی سلیقے سے تاریخ کا ایک سیدھا سا سوال اور کراچی کے اس عام شہری اور صحافی کے اس ایک کاش پر غور کرنے کی شکتی رکھتا ہے؟
(تصویر میں دائیں سے، ڈاکٹر عمران فاروق (جنرل سیکرٹری)، الطاف حسین (قائد) اور عظیم احمد طارق (چیئرمین) موجود ہیں)