تحریر: سلمان نسیم شاد
سنا تھا کہ زندگی بھی اپنے رنگ بدلتی ہے وہ جہاں ہماری زندگی میں خوشیاں بکھرتی ہے وہیں غم کا لاوا بھی پھٹتا ہے۔ میری زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ الحمداللہ ایک پڑھے لکھے صحافتی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میرے والد نامی گرامی صحافی و ادیب تھے انھوں نے ہماری بہت اچھی تربیت کری۔ میں بچپن سے ہی بہت حساس تھا اتنا حساس کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس ہی حساسیت کی وجہ سے میرا دل بہت کمزور ہوگیا۔ کسی کو تکلیف و پریشانی میں دیکھ کر میرا دل کانپ سا جاتا جا جاتا آنکھیں چھلک پڑتیں اور آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ دوسروں کا سوچا ان کے لئے مجھ سے جو ہوسکتا تھا کیا مگر کبھی اپنے لئے کچھ نہیں سوچا۔ مگر جواب میں مجھے ہمیشہ درد ملے بے وفائی ملی تکلیفیں ملیں جس سے اذیت کا شکار ہی رہا۔ لوگوں کے بدلتے روئیوں کی وجہ میں آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار ہوتا رہا۔ اور وقت کے ساتھ یہ ڈپریشن بڑھتا ہی رہا اور اتنا بڑھ گیا کہ ڈپریشن کے ساتھ اینگزائٹی و سوشل اینگزائٹی کا بھی شکار ہوگیا۔ دل میں عجیب وسوسے آنے لگے۔ جو لوگ میری جان تھے میرے دوست یار جن کے ساتھ میں گھنٹوں بیٹھا کرتا تھا ہنسی مذاق کیا کرتا تھا۔ کبھی ہم آئوٹٹنگ پر جاتے تو کبھی مٹر گشت کیا کرتے۔ آہستہ آہستہ وہ سب ختم ہوگیا۔ مجھے میرے دفتر میں دفتر کی جان کہا جاتا تھا۔ جہاں مجھے بہت محبت ملی میں سب کا چہیتا تھا سب میری نہ صرف عزت کرتے تھے بلکہ انھوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ مگر کچھ لوگ میری زندگی میں ایسے آئے جنھوں نے مجھے بہت تکلیف دی۔ میری محبت کے جواب میں انھوں نے مجھے اذیتیں دیں اور جب ایک حساس انسان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا۔ اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس وقت میں نہ صرف ڈپریشن بلکہ شدید اینگزائٹی کا بھی شکار ہوں۔ کل تک ہنستا بولتا انسان آج گھر کی چار دیواری میں قید ہو چکا ہے۔ میرا دفتر میرے دوست میری گیدرینگ سب ہی تو ختم ہوگیا۔ ویسے تو میرا فون فلائٹ موڈ پر ہی رہتا ہے اور کبھی اتفاق سے کھلا رہ جائے اور فون کی گھنٹی میرے کانوں میں سنائی دے تو ایک ان جانا سا خوف جنم لیتا ہے کہ کہیں سے کوئی خوف ناک خبر میری منتظر نہ ہو جس کو سن نہ کرسکوں۔ ڈاکٹر کی دوائیاں جاری ہیں مگر مجھے اپنی حالت میں کوئی سدھار نظر نہیں اتا۔ بدقسمتی سے ہمارے اس معاشرے میں کوئی ڈپریشن و اینگزائٹی کو مرض تسلیم ہی نہیں کرتا۔ مگر جو انسان اس کا شکار ہوتا ہے وہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیسے روز جیتا اور مرتا ہے۔ سب سے چھپ کر رات کی تنہائی میں آنسو بہاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے میں سب کے سامنے تماشا نہیں بنانا چاہتا کیوں کہ یہاں لوگ مذاق ہی بناتے ہیں۔ رات کا اندھیرا مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ منفی خیالات نے میرے دل میں گھر کرلیا ہے۔ کوئی گھر سے باہر جائے تو خیال آتا ہے خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے کچھ غلط نہ ہوجائے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح کے خیالات کتنی تکلیف دیتے ہیں۔کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلوں مگر میں حرام موت نہیں مرنا چاہتا۔ اس لیے چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو روک لیتا ہوں مگر میں کب تک اپنے آپ کو اس چیز سے روک سکتا ہوں مجھے یہ نہیں معلوم۔
کوئی حادثہ
کوئی سانحہ
کوئی بہت ہی بری خبر
ابھی کہیں سے آئے گی!
ایسی جان لیوا فکروں میں
سارا دن ڈوبا رہتا ہوں
رات کو سونے سے پہلے
اپنے آپ سے کہتا ہوں
بھائی مرے
دن خیر سے گزرا
گھر میں سب آرام سے ہیں
کل کی فکریں
کل کے لیے اٹھا رکھو
ممکن ہو تو
اپنے آپ کو
موت کی نیند سلا رکھو!!