سمے وار (مانیٹرنگ ڈیسک)
ممتاز صحافی مظہر عباس نے ’یوٹیوب‘ پر دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ نے ’اے پی ایم ایس او‘ (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کا توڑ کرنے کے لیے مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ایم ایس او) کھڑی کرنے کی کوشش کی، بات نہیں بنی تو پھر ’اے پی ایم ایس او‘ کے اسٹال پر حملے کیے گئے۔ دوسری طرف جمعیت مخالف تنطیموں میں بھی ’اے پی‘ کے لیے قبولیت موجود نہ تھی۔ عظیم احمد طارق نے مجھے انٹرویو میں بتایا کہ ہمارا ارادہ ’ایم کیو ایم‘ بنانے کا تھا ہی نہیں، لیکن ’جمعیت‘ نے ہمارے راستے بند کر کے ہمیں اس جانب دھکیلا۔ ہم جب گلی محلوں میں گئے تو ہمیں لوگوں سے بہت حمایت ملی، تو ہم نے ’ایم کیو ایم‘ بنائی۔ اس وقت تک الطاف حسین قومی جھنڈا جلانے کے مقدمے میں نو ماہ کی سزا مکمل کرنے کے بعد امریکا چلے گئے تھے۔1987ءکے انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کی جگہ لی۔ اس سے قبل جماعت کو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں کچھ جھکٹا لگ چکا تھا، ان کے بڑے امیدوار محمود اعظم فاروقی ہار گئے تھے۔ جماعت کے مقابل احد یوسف، شاہ بلیغ الدین اور دوست محمد فیضی جیسے بہت سے دائیں بازو کے دیگر لوگ کام یاب ہوگئے تھے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب کراچی میں تشدد کی سیاست بہت بڑھ چکی تھی، ایم کیو ایم ابھی آگے نہیں تھی۔ مظہر عباس کی اس بات سے پتا چلتا ہے کہ 1985ءکے انتخابات میں ہی جماعت اسلامی شکست کھانے لگی تھی، جب کہ ایم کیو ایم ابھی انتخابی سیاست میں موجود نہ تھی، اس طرح اس بات کی مدافعت ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم بنوا کر جماعت اسلامی کو روکا گیا۔
Categories