تحریر : شبیر ابن عادل
آج 16اگست ہے، اور آج سرسید احمد خان کے شاگرد اور بابائے اردو کے نام سے مشہور ’انجمن ترقی اردو‘ کے روح ورواں مولوی عبدالحق کا 61 واں یوم وفات ہے۔ آپ 1869ءمیں ہاپوڑ میں پیدا ہوئے، 1894ءمیں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔
1895ءمیں حیدر آباد (دکن) میں ایک اسکول میں ملازمت کی، پھر 1930ءتک عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل رہے۔ جنوری 1902ءمیں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ءمیں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبد الحق سیکرٹری منتخب ہوئے، جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبد الحق اورنگ آباد (دکن) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک لاکھ سے زائد جدید علمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کر کے چھاپے گئے۔ دو سہ ماہی رسائل اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سیکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔
پاکستان بننے کے بعد انھوں نے اسی انجمن کے تحت کراچی میں اردو آرٹس کالج اور پھر اردو سائنس کالج، قائم ہوا، جسے 2002ءمیں جنرل پرویز مشرف نے بابائے اردو کے خواب کے مطابق یونیورسٹی کا درجہ دے دیا اور دنیا آج اسے اردو یونیورسٹی کے نام سے پہچانتی ہے، جو عبد الحق کیمپس اور گلشن کیمپس کراچی اور اسلام آباد کیمپس کی صورت میں موجود ہے۔
1935ءمیں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انھیں ”بابائے اردو“ کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ 1959ءکو حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
وہ کتابیں جو مولوی صاحب نے لکھیں یا جن کو تحقیق و حواشی کے ساتھ شائع کیا نکات الشعرا،دیوان ِ تابان، گلشن ِ عشق، قطب مشتری دیوانِ اثر، تذکرہ ریختہ گویاں، مخزن شعرا، ریاض الفصحا، عقد ِ ثریا،کہانی رانی کیتکی اور اودھ بھان، تذکرہ ہندی، چمنستان ِ شعرا، ذکر ِ میر، مخزن نکات، ا±ردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام، قواعد ا±ردو، معراج العاشقین، باغ و بہار، سب رس از ملاّ وجہی، قدیم ا±ردو، سرسیّد احمد خاں : حالات و افکار، چند ہم عصر، نصرتی۔ حالات اور کلام پر تبصرہ، مرحوم دہلی کالج، پاکٹ انگریزی ا±ردو ڈکشنری، اسٹوڈنس انگریزی اُردو ڈکشنری، ا±ردو انگریزی ڈکشنری، اسٹینڈرڈ انگلش ا±ردو ڈکشنری، لغت ِکبیر جلدِ اوّل، انتخاب کلامِ میر، دریائے لطافت، گل عجائب، انتخابِ داغ، ا±ردو صرف و نحو، خطبات گارساں دتاسی، دی پاپولر انگلش ا±ردو ڈکشنری، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سر آغا خاں کی ا±ردو نوازی۔
مولوی عبدالحق تنقید و تحقیق کے مرد میداں تھے اور ایک نام ور ادیب بھی۔ ان کا انداز تحریر، طرزِ بیان نہایت صاف، سلیس، سادہ اور آسان ہے۔ عبارت میں زور آور رنگینی و دل کشی ہے۔ دیگر زبانوں کے الفاظ بھی عبدالحق کے ہاں خوب ملتے ہیں۔ ہندی، انگریزی الفاظ کی حسین آمیزش بھی ان کے تصنیف میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ اپنے مطلب کو سادہ و سلیس الفاظ میں بیان کرنا مناسب تسلیم کر تے ہیں۔
مولوی صاحب کی تصانیف“مقدمات عبدالحق ”، ”انتخاب کلام میر“ اردو ادب میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ مولوی صاحب دم آخر تک اردو زبان کی خدمت کر تے رہے ان کی خدمتوں کو کوئی بھی اہلِ اردو فراموش نہیں کر سکتا ہے۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق 16 اگست 1961ءکو کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ موجودہ وفاقی اردو یونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) کے عقب میں متصل انجمن ترقی اردو کے سابقہ دفتر کے احاطے میں آسود? خاک ہیں۔
Categories