رضوان طاہر مبین
@RizwanTahirMbin
12 اکتوبر 1999ءکو یہ ایک معمول کی ڈھلتی ہوئی شام تھی، جسے ایک کچھ غیر معمولی سے واقعے کی ’دھمک‘ نے کچھ ممتاز کر دیا تھا
ہمارے محلے کے اخبار کے اسٹال کے گرد کچھ لوگ جمع تھے، جہاں شام کے اخبارات کے اوپر ایک ’خصوصی ضمیمہ‘ موجود تھا: ”جنرل پرویز مشرف برطرف!“ اور نئے آرمی چیف کی تقرری اور ان کی تصویر۔ زندگی میں بہت سے ضمیمے دیکھے، بم دھماکوں اور دہشت گردیوں کے واقعات کے ساتھ ’صدر فاروق لغاری مستعفی‘ اور ’جنرل جہانگیر کرامت مستعفی‘ والی سرخیوں کے ضمیمے نہ جانے کیوں ذہن کے پردے پر زیادہ واضح ہیں، سو 12 اکتوبر 1999ءکی شام ایک ایسے ہی ایک اور ’استعفے‘ کی خبر دے رہا تھا، لیکن اس بار بات عجیب تھی، کیوں کہ گلی کوچوں کی سرگوشیوں اور مباحثوں میں کچھ ”افواہیں“ زیر بحث تھیں، جسے ’ضمیمے‘ کی ایک بڑی خبر سے زیادہ اہمیت دی جا رہی تھی۔ ان چہ مگوئیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام آباد میں کچھ اور گڑبڑ گھٹالا ہو چکا ہے اور لوگ اب اس برطرفی کے بہ جائے اس سے اگلی ’پیش رفت‘ کے بارے میں جاننے کے لیے سرگرداں تھے!
خبروں کے واسطے لے دے کر ایک سرکاری ’پی ٹی وی‘ تھا، سرکاری ریڈیو اور اس کے ایف ایم 101 کے سوا، نجی شعبے کا اکلوتا ریڈیو ایف ایم 100 تھا لیکن ’ایف ایم‘ کا تب خبروں سے کوئی واسطہ نہیں تھا، لیکن عوام بے چین تھے، کوئی ’بی بی سی‘ پر کان لگائے بیٹھا تھا تو اور کوئی کسی دوسرے غیر ملکی چینل سے کچھ سننے کی تگ ودو میں تھا، لیکن اصل خبر سامنے نہیں آرہی تھی پھر اس وقت میسر ٹی وی اور ریڈیو چینل پر معمول کی نشریات روک دی گئیں اور لگاتار ’ملی نغمے‘ نشر ہونے لگے، بہت عجیب ماحول تھا، اکتوبر میں لوگ ’یوم آزادی‘ کے سے رنگ میں تھے اور سب ’خبر‘ جاننے کی جستجو میں یہی حب الوطنی کے لہو گرما دینے والے ترانے سنے جا رہے تھے پھر یوں ہوا کہ وقتاً فوقتاً یہ پیغام نشر کیا جانے لگا، جس میں غالباً نواز حکومت کی برطرفی یا فوج کے حکومت سنبھالنے کا بھی بتایا جاتا اور پھر کہا جاتا کہ اب سے کچھ دیر بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف قوم سے خطاب کریں گے۔ ہم بھی اگلی صبح اپنے اسکول کے لیے سویرے جاگنے کے خیال کو پس پشت ڈال کر اس خبر کی لگن میں رات گئے تک جاگتے رہے لیکن پتا نہیں یہ رات طویل تھی یا لمبی محسوس ہو رہی تھی کہ اسی انتظار میں ہماری آنکھ لگ گئی اور پھر اگلے دن کے اخبارات تو اِس گزرے دن کی ساری تفصیلات سے آراستہ تھے، ملکی تاریخ میں چوتھا جرنیل کا اقتدار آچکا تھا، لیکن مارشل لا نافذ نہیں کیا گیا، وہ وزیراعظم کے اختیارات سنبھالتے ہوئے ’چیف ایگزیکٹو‘ جنرل پرویز مشرف قرار پائے۔
12اکتوبر 1999ءکو جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کی آزادی کی پچاس سالہ تقریبات میں شرکت کر کے وطن لوٹ رہے تھے، کہ وزیراعظم نواز شریف نے انھیں برطرف کرکے اس وقت کے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف نام زد کیا۔ کور کمانڈر نے یہ حکم ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ اگر انھیں ہٹانا ہی ہے تو جنرل پرویز کی واپسی کا انتظار کیا جائے، بہ صورت دیگر وہ جنرل پرویز مشرف کے احکامات ہی کی تعمیل کریں گے۔ ادھر پرویز مشرف اس کارروائی سے بے خبر محو سفر تھے، حکومت نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہا، لیکن یہ ’سمجھ داری‘ اسی پر الٹ گئی، فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ 10 نومبر 1999ءکو نواز شریف اور دیگر کے خلاف اقدام قتل، ہائی جیکنگ، دہشت گردی اور اغوا کا مقدمہ درج ہوا۔ 23 نومبر کو سابق ڈائریکٹر جنرل امین اللہ چوہدری طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ 6 اپریل 2000ءکو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نواز شریف کو دو مرتبہ بامشقت عمر قید، پانچ لاکھ جرمانہ اور تمام جائیداد بہ حق سرکار ضبط کرنے کا حکم سنایا۔
دوسری طرف اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999ءکو یہ حکم دیا تھا کہ جنرل ضیا الدین جب تک فوج کی کمان نہ سنبھال لیں، اس وقت تک جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کے کسی ائیر پورٹ پر نہ اترنے دیا جائے، جب معلوم ہوا کہ طیارے میں ایندھن کم ہے تو نواب شاہ ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت دی گئی، مگر اس دوران مختلف کور کمانڈروں نے نواز شریف کے اس حکم کو ناکام بنایا اور طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر اتروایا تھا۔ بعد ازاں مقدمے کے دیگر ملزمان، شہباز شریف، سعید مہدی، سیف الرحمن، رانا مقبول، غوث علی شاہ اور شاہد خاقان عباسی کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
10 دسمبر 2000ءکو صدر مملکت رفیق تارڑ نے گذشتہ کئی ماہ سے جاری رحم کی اپیلوں پر نواز شریف کی سزا معاف کر دی، شریف خاندان نے اس معافی کے بدلے ماڈل ٹاﺅن کی رہائش گاہ، برادر اسٹیل ملز، الیاس انٹر پرائزز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ اور برطانیہ میں واقع ہوٹل سے دست برداری اور30 کروڑ روپے کی پیش کش کی تھی، جسے قبول کر کے انھیں سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ جہاں سے وہ نومبر 2006ءمیں لندن منتقل ہوگئے، وہاں سے پاکستان آنے کی کوشش کی تو انھیں ائیرپورٹ ہی سے واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
15 اکتوبر 1999ءکو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت 500 اہم شخصیات کے کھاتے منجمد کر دیے گئے۔ 16 اکتوبر 1999ءکو قرض دہندگان کے خلاف ملک گیر آپریشن اور پکڑ دھکڑ ہوئی۔ 12 مارچ 2000ءکو اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 30 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ یکم نومبر 1999ءکو پرویز مشرف نے اپنے اثاثوں کا اعلان کر دیا۔ 18 اکتوبر 1999ءکو دولت مشترکہ نے پاکستان کی رکنیت معطل کی، 19 اکتوبر کو 1999ء’آئی ایم ایف‘ نے اقتصادی تعاون بھی معطل کر دیا۔ 27 اکتوبر کو ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے 99 ممالک میں پاکستان کو ساتواں کرپٹ ترین ملک قرار دیا۔
13 اکتوبر 1999ءکو صدر مملکت رفیق تارڑ نے فوجی اقدام کی حمایت کی۔ جنرل پرویز مشرف کی پہلی کابینہ میں وزیر خارجہ عبدالستار، وزیر خزانہ شوکت عزیز، وزیر اطلاعات جاوید جبار، وزیر تعلیم زبیدہ جلال، وزیر داخلہ لیفٹننٹ معین الدین حیدر وزیر داخلہ، وزیر سائنس وٹیکنالوجی ڈاکٹر عطا الرحمن، عمر اصغر وزیر بلدیات، عبدالرزاق داﺅد وزیر تجارت قابل ذکر ہیں۔ 20 جون 2001ءکو چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے صدر مملکت رفیق تارڑ کی جگہ صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔ معطل سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ 30 اپریل 2002ءکو صدارتی ریفرنڈم میں صدر مملکت منتخب ہوئے، 4 جنوری 2004ءکو پہلی بار اور 6 اکتوبر 2007ءدوسری مرتبہ پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 21 اگست 2002ءکو جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کا اعلان کیا، جنھیں پارلیمانی توثیق کی ضرورت نہیں ہوگی، جس کے تحت 29 دفعات میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جس میں صدر مملکت کے اسمبلیاں توڑنے کے اختیار کی بحالی، ووٹر کی عمر 18 سال کرنے، قومی اسمبلی اور سینٹ کی نشستوں میں اضافہ قابل ذکر ہیں۔ 10 اکتوبر 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) نے 118، متحدہ مجلس عمل نے 59، پیپلز پارٹی نے 80، مسلم لیگ (ن) نے 18 اور ’ایم کیو ایم‘ نے 17 نشستیں حاصل کیں۔ طویل مذاکرات اور جوڑ توڑ کے بعد پیپلز پارٹی کے لگ بھگ 10 ارکان نے ’پیٹریاٹ‘ کے نام سے میر ظفر اللہ خان جمالی کی حمایت کر دی اور یوں وہ وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد ’ایل ایف او‘ نہ ماننے کے باعث ایک سال تک پارلیمان میں احتجاج چلتا رہا، پھر ’متحدہ مجلس عمل‘ سے مذاکرات کے بعد یہ آئینی ترامیم ’سترھویں ترمیم‘ کے نام سے 29 دسمبر 2003ءکو قومی اسمبلی 30 دسمبر 2003ءکو سینٹ سے منظور ہو کر آئین کا حصہ بن گئیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، (س)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہل حدیث اور تحریک اسلامی جیسی چھے مذہبی جماعتوں پر مشتمل ’متحدہ مجلس عمل‘ نے اس کے بدلے میں 31 دسمبر 2004ءتک فوجی عہدہ چھوڑنے کا وعدہ لیا، جس کا اعلان پرویز مشرف نے قوم سے خطاب میں کیا، لیکن جوں ہی یہ مدت قریب آنا شروع ہوئی، پیپلز پارٹی (پیٹریاٹ) اور پھر ق لیگ کے ’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘ وزرا نے وردی نہ اتارنے پر اصرار شروع کر دیا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے بھی ’وردی کو کھال‘ قرار دے دیا اور اپنے ہی اعلان کردہ وعدے سے منحرف ہونے کا اعلان کر دیا۔
٭ 2001 ءمیں دورہ بھارت
جنرل پرویز مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 14 جولائی 2001ءکو ہندوستان کا دورہ کیا، موہن داس گاندھی کی سمادھی پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور پرانی دلی میں آبائی حویلی کا دورہ کیا۔ آگرہ میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واچپائی سے مذاکرات کیے، جس میں ایک مشترکہ اعلامیے پر اتفاق رائے ہوگیا، لیکن بھارتی کابینہ نے اس میں تبدیلیاں کیں اور دونوں کی درمیان ملاقات کے چار ادوار ہونے کے باوجود بیل منڈھے نہ چڑھ سکا اور 16 جولائی 2001ءکو پرویز مشرف لوٹ آئے، واچپائی نے نومبر 2001ءمیں پاکستان کے دورے کا اعلان کیا اور کہا مجھے توقع ہے کہ ہم کسی فیصلے پر پہنچنے میں کام یاب ہو جائیں گے، لیکن پھر کشیدگی بڑھی، فوجیں سرحدوں پر آگئیں اور یہ دورہ نہ ہو سکا۔
٭ نچلی سطح تک بااختیار بلدیاتی حکومتیں
8اگست 2001 ءکو فعال اور خود مختار شہری حکومتوں کے نظام میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم اور مسلم لیگ (ق) کے طارق حسن نائب ناظم بنے اور بھرپور طریقے سے ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ 2005ءتک اپنے عہدے پر رہے، ان کے بعد ’ایم کیو ایم‘ نے بھی بلدیاتی چناﺅ میں حصہ لیا اور مصطفیٰ کمال کو ناظم اور نسرین جلیل کو نائب ناظمہ بنایا گیا، ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں 2009ءتک انھوں نے بھی کوئی رخنہ نہیں پڑنے دیا، لیکن اس دوران پرویز مشرف 2008ءمیں پارلیمان میں مواخذے کی تحریک لائے جانے پر مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد کے ”جمہوری“ ادوار میں پرویز مشرف کے اس بھرپور نظام کو لپیٹ دیا گیا اور عدالتی حکم پر 2015ءمیں ایک لولا لنگڑا بے دست وپا بلدیاتی نظام دیا گیا، جس کے باعث عوام اور جمہوری حلقے نچلی سطح تک عوام کو بااختیار بنانے والے اس نظام کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
٭ 11 ستمبر 2001ءسے ’ایٹمی پھیلاﺅ‘ کے بحران تک
جنرل پرویز مشرف کے دور کا سب سے بڑا بحران امریکا میں 11 ستمبر 2001ءکے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال تھی، جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکا اور اتحادی ممالک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس قدم پر ناقدین انھیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت کوئی اور اقتدار میں ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ اس کا فیصلہ کچھ مختلف ہوتا؟ یہ بدقسمتی تھی کہ امریکا نے روایتی طور پر پاکستان کو استعمال کیا اور ملک بھر میں امریکا کا ساتھ دینے کے ردعمل میں شدید ترین دہشت گردیاں ہوئیں، لاکھوں بے گناہوں کی جانیں گئیں، معیشت کو بڑا نقصان ہوا، خود پرویز مشرف پر کئی مرتبہ جان لیوا حملے ہوئے، لیکن وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ دوسرا بڑا سنگین بحران ’ایٹمی پھیلاﺅ‘ کے حوالے سے تھا، جس میں نومبر 2003ءسے جاری تحقیقات کا انت چار فروری 2004 کو پاکستان کے جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سرکاری ٹی وی پر ذاتی طور پر ایٹمی پھیلاﺅ کے اعتراف اور معافی کے بعد ہوا۔ اس سے قبل 31 جنوری 2004ءکو ڈاکٹر عبدالقدیر کو وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے سبک دوش کیا گیا۔ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ”ڈاکٹر عبدالقدیر نے دوسری بار پاکستان کو بچا لیا!“
٭ ’نادرا‘، ’پیمرا‘ اور ’ایچ ای سی‘ وغیرہ
جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان میں بہتیرے نئے قومی اداروں کا قیام عمل میں آیا، جو آج بھی پوری طرح قومی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں، ان میں 17 اکتوبر 1999ءکو نیشنل سیکورٹی کونسل اور تھنک ٹینک کا قیام، جس کا نام ’قومی تعمیر نو بیورو‘ رکھا گیا۔ 10 مارچ 2000ءکو مشہورِ زمانہ ادارے نادرا (NADRA)، 2002ءمیں ’پیمرا‘ (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) اور پھر اعلیٰ تعلیم کے ادارے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ قائم کیا گیا۔ 22 مارچ 2002ءکو گوادر کی بندرگاہ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔
٭ ’آزادی صحافت‘ اور ”مجبوری حالات و واقعات“
جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اعلان کیا کہ وہ پہلی فوجی حکومت ہوگی جو تنقید برداشت کرے گی، اور یہ بات آخر کے کچھ عرصے پہلے تک لگ بھگ درست ثابت بھی ہوئی، ایک تقریب میں مدرسے کے ایک طالب علم کی ایک ویڈیو آج بھی ’سوشل میڈیا‘ پر پیش کی جاتی ہے، جس میں وہ بھرے پُرے پروگرام میں باوردی جنرل پرویز مشرف پر سخت تنقید ہی نہیں کرتا، بلکہ ان سے سوالات بھی پوچھتا ہے، مگر وہ بہت گنجائش سے جواب دیتے ہیں۔ یہی نہیں جب عبدالقدیر خان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اب وہ میرے ہیرو نہیں ہیں، ایکسپریس کے کالم نگار عبدالقادر حسن (مرحوم) نے ان کے روبرو کہا تھا کہ وہ اب بھی میرے ہیرو ہیں۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے اٹھنے والی ”تحریک“ کے دوران نجی ٹی وی چینلوں اور ان کے پروگراموں کو کڑی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ بہ تدریج ذرایع اِبلاغ پر سختیاں عائد ہوئیں، لیکن اس کے بعد سے جو ’جمہوری‘ ادوار میں ریاستی جبر اور دیگر مزید پابندیوں اور ’سیلف سنسر شپ‘ کا بڑھتا ہوا سلسلہ جس نہج پر پہنچا، تو پرویز مشرف کی ’صحافتی رکاوٹیں‘ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتی ہیں۔
٭ عدلیہ، لال مسجد بحران سے بے نظیر بھٹو کے قتل تک
2007ءمیں اٹھنے والا عدلیہ کا بحران، جسے اب ’مشکوک‘ اور ’پرا سرار‘ کہنے میں کوئی عار نہیں، کیوں کہ بہت سے تجزیہ کاروں نے اب اعتراف کیا ہے کہ اس کے پس پشت عوامل کچھ اور تھے، جس کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے پرویز مشرف کے اقتدار کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ 12مئی 2007ءکو کراچی میں افتخار چوہدری کی آمد پر سیاسی جماعتوں کا تصادم، اسلام آباد کی ”لال مسجد“ کا تنازع، جس نے پہلے سے سلگتے ہوئے مذہبی عنصر کو یک دم بہت بھڑکا کے رکھ دیا! خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ میں فوجی آپریشن سے بھی بہت بے چینیاں بڑھیں، وہاں عمائدین سے بہت سے معاہدے بھی کیے گئے، جو پائیدار نہ رہ سکے۔ لاپتا افراد، امریکا کو مطلوب افراد کی حوالگی، بلوچستان میں دوبارہ چنگاری سلگ اٹھنے وغیرہ سے لے کر 2007ءمیں انتخابی مہم کے دوران سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کراچی میں حملہ اور پھر 27 دسمبر 2007ءکو راول پنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ان کا قتل بھی ایسے افسوس ناک واقعات تھے، جس نے پرویز مشرف کی بڑھتی ہوئی مشکلات کو بڑھا وا دیا، جو بلآخر ان کے اقتدار سے رخصتی کا سبب بنا۔
٭ مصالحتی آرڈیننس المعروف ”این آر او“ سے استعفے تک!
پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مصالحتی آرڈیننس کے ذریعے اپنے بہت سے مقدمات ختم کرائے۔ پرویز مشرف کی سب سے بڑی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے اس مصالحت پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ حکومت سے مبینہ معاہدے کے برعکس میاں نواز شریف مقررہ 10 سال سے پہلے وطن واپس آگئے، ان کے ضامن سابق لبنانی وزیراعظم سعد حریری کو بھی اس میں مداخلت کرنی پڑی، لیکن آخر کار 18اکتوبر 2007ءکو بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد وہ بھی 2008ءکے انتخابات سے پہلے پاکستان میں موجود تھے۔ یہ تمام صورت حال واضح طور پر پرویز مشرف کی اقتدار پر کمزور پڑتی ہوئی گرفت کو ظاہر کر رہی تھی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے عام انتخابات کا التوا ایک بار بھی نہیں کیا۔ 2007ءکے عام انتخابات بھی بے نظیر کے قتل اور اس کے بعد ملک بھر میں پیدا شدہ صورت حال کے باعث کچھ دن ہی کے لیے ملتوی ہوئے۔ پھر ان کے بعد اسمبلیاں توڑنے کا اختیار موجود تھا، لیکن جب اسمبلی میں صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کرنے کی تیاری ہوئی، تو انھوں نے 18 اگست 2008ءکو قوم سے خطاب میں مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
٭ سیاست کرنے کی خواہش اور ”بدقسمتی“
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار کے بعد باقاعدہ سیاست کرنے کے لیے ”آل پاکستان مسلم لیگ“ قائم کی، لیکن اس حوالے سے وہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کرسکے، ان کی سیاسی بد قسمتی کہ ’ایم کیو ایم‘ کے مختلف دھڑوں اور جماعت اسلامی تک آج ان پر بے رحمانہ تنقید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور بالخصوص کراچی میں کے دور کرائے گئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں اور اس کے لیے نہایت فراخ دلی سے دیے جانے والے فنڈز کو نظرانداز کر کے اسے صرف اپنا ’کارنامہ‘ قرار دیتے ہیں۔ رہی مسلم لیگ (ق) تو وہ انھی روایتی سیاست دانوں کا نتیجہ تھی، جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے ٹھکانے بدلتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ’شہرِ قائد‘ میں ان کے حوالے سے ایک واضح حمایت اور نرم گوشہ موجود رہا ہے، ناقدین اسے پرویز مشرف کا ’مہاجر‘ ہونا قرار دیتے ہیں، جب کہ اس کے محرکات شہر کی تعمیر اور ترقی اور مجموعی طور پر ایک پرامن اور صاف ستھرا کراچی، وہ نظرانداز کر دیتے ہیں، اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ 2007ءکے بعد سے یہاں جو بے امنی بڑھی، تو آج تک ویسا سکون اور امن دوبارہ نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب چترال اس ملک کا واحد ایسا علاقہ ہے کہ جہاں کے لوگ پرویز مشرف کے احسان کو نہ صرف مانتے ہیں اور وہاں کے ترقیاتی کاموں کی بدولت پرویز مشرف کے نام زَد کردہ ایک رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔ تین نومبر 2007 ءکو دستور کی معطلی اور ہنگامی صورت حال کے نفاذ کے خلاف انھیں غداری کے مقدمے کا سامنا ہوا، لیکن وہ خرابی¿ طبیعت کا عذر کر کے عدالت میں پیش نہیں ہوئے، پھر وہ ملک سے چلے گئے اور انھیں اس مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی، جسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا، پانچ فروری 2023ءکو وہ دبئی میں 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
(اس مضمون کی تیاری میں روزنامہ ایکسپریس کی پرانی فائلوں اور ’پاکستان کرونیکل‘ /از ڈاکٹر عقیل عباس جعفری سے خصوصی طور پر استفادہ کیا گیا ہے)