(تحریر: رضوان طاہر مبین)
”عمر رواں پھر نہیں مسکرائی بچپن کی طرح میں نے گڑیا بھی خریدی، کھلونے بھی لے کر دیکھے!“
ہم میں سے اکثر لوگ یہی شکایت کرتے ہیں کہ زندگی میں اب ہمیں خوشی ہی نہیں ہوتی، جب کہ بچپن میں تو ہم بہت خوش رہتے تھے۔ یہی بات ہم بھی سوچتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بچپن میں ہماری وہ خوشی ہوتی کیا تھی؟
عہد کم سنی میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، ہم ہر چیز کو نیا، نیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں معلومات لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ حیران کن دریافت اور معلومات ہمیں کسی نہ کسی سطح کی خوشی اور مسرت دیتی ہے۔ کوئی ذمہ داری نہ ہونے کے سبب ہماری ’دردِ سری‘ صرف پڑھائی ہی ہوتی ہے، اس میں ہفتہ وار تعطیل ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے، اضافی چھٹیاں اور مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی ملتی ہے۔ اس میں ہماری منشا صرف اور صرف کھیل کود اور من چاہی سرگرمیاں ہوتی ہیں، نئی جگہوں پر جانا، نئی چیزیں کھانا اور نئی نئی باتیں جاننا اور سمجھنا اور بس
جب کہ آج کی عمر میں ہمیں روزی روٹی کی سب سے بڑی پریشانی لاحق ہوتی ہے، مہنگائی اور تنگ دستی کے ساتھ ناگہانی اخراجات ہمارا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اب ہمیں تہوار خوف زدہ کرتے ہیں، تقریبات کی دعوت پریشان کرتی ہیں، یعنی آج ہمیں خوشی کے مرحلے بھی بوجھ اور وبال لگ رہے ہوتے ہیں کیوں کہ اس کے تقاضے پورے کرنا ہمارے ذمے ہوتے ہیں۔ ہم کم سے کم سفید پوشی کے بھرم سے لے کر بہتر سے بہتر زندگی کی دوڑ میں خود کو شاید بچپن ہی میں پیچھے چھوڑ آئے ہوتے ہیں۔ ہمیں کم ہی احساس ہوتا ہے کہ ہم زندہ بھی ہیں۔ ہماری زندگی صرف گھر کے کرائے، راشن، پانی، بجلی، گیس اور دوائیوں کے بل بھرنے کے لیے ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اس پر نئی نئی پریشانیاں اور مسائل ہمیں خدشات سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔
دوسری طرف دیکھیے، تو ہم بتاتے ہیں کہ ہم بچپن میں روزانہ فلاں ٹافی اور فلاں چیونگم لے کر خوش ہو جاتے تھے، کچھ زیادہ روپوں کی چاکلیٹ لے کر شاد ہو جاتے تھے، امی ابو سے آئس کریم کی ضد پوری کرا کر بہت دیر تک اس کے سُرور میں جھومتے رہتے تھے۔
ہماری ساری خواہشات بس نئی نئی چیزوں کے گرد ہی گھومتی تھی۔ مثال کے طور پر ہم ہر مہینے رسالہ ’نونہال‘ بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ یہ مہینا ختم ہونے سے تین، چار دن پہلے آ جایا کرتا تھا، ہم اس کے انتظار میں دکان کے چکر لگایا کرتے کہ شاید نیا شمارہ ٹنگا ہوا دکھائی دے جائے، لیکن یہ ایک، دو دن کے انتظار پہاڑ ہو جاتے تھے۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ محلے کی ایک دکان پر تازہ نونہال آویزاں نظر آجاتا، لیکن ہم جہاں سے لیتے، وہاں نہیں آیا ہوا ہوتا، تو یہ بھی اور طرح کی کوفت ہوتی۔ ہم سے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ ہم اِس دکان سے رسالہ لیں یا اُسی دکان پر آنے کا انتظار کریں، جہاں سے ہمیں دو روپے کی رعایت مل جاتی ہے۔ پھر جب نیا رسالہ ہاتھ میں آجاتا تو اس کی کس قدر خوشی ہوتی، ہم جب تک پورا رسالہ نہ پڑھ لیتے، اِسے ہاتھ سے رکھتے نہیں تھے، سوتے ہوئے کم روشنی میں بھی پڑھنے سے باز نہیں آتے تھے۔ بچپن میں یہی خوشی ہوتی تھی ہماری۔
نئی نئی کتابیں لینا، کہانیاں پڑھنا۔ روزانہ صبح اسکول جاتے ہوئے تازہ اخبار اسٹال کے گرد جمع ہونے والے بزرگوں اور بڑوں میں ہماری عمر کا شاید ہی کوئی اور ہوتا ہوگا، سلیقے اور ترتیب سے سجے ہوئے تازہ اخبارات کی نت نئی خبریں، بیانات، واقعات بھی ہمارے جاننے کی لگن کی خوب تسکین کرتے۔
اس کے علاوہ اپنی خواہش کے مطابق نئی چیزیں خریدنا، اسے حاصل کرنے کے لیے انتظار کرنا، پیسے جمع کرنا، کہیں گھومنے جانا، نئی جگہیں دریافت کرنا، رشتے داروں کے ہاں جانا یا اُن کا ہمارے ہاں آنا، اپنے دوستوں سے مل بیٹھنا، مختلف کھیل کھیلنا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے پروگرام دیکھنا اور سننا اور ہفتے بھر ان کا انتظار کرنا، بس زندگی میں اِس کے سوا کرنا ہی کیا ہوتا تھا۔
پھر اسکول سالانہ امتحانات ختم ہونے کی خوشی تو عید کی مَسرت سے بھی کہیں زیادہ محسوس ہوتی تھی، یوں معلوم ہوتا کہ بہت بڑا معرکہ سر ہوا اور ایک بھاری بوجھ سر سے ہٹا۔ اب بہت دنوں تک کوئی پڑھائی نہیں کرنی ہوگی۔ پھر نئی کلاس میں جائیں گے، نئی کتابیں، نئی کاپیاں اور ان کو چھو کر محسوس کرنا اور ان کی منفرد خوش بو سونگھنا ہمارے وجود کو تازہ کر دیا کرتا تھا۔
رہی عید کی بات، تو نئے جوتے، نئے کپڑے، نئی گھڑی اور نئے کھلونے یہ سب ہماری خوشیوں کا بہت اہم ذریعہ ہوتے تھے۔ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں جانا ہے، تو وہاں جا کر لوگوں سے ملنے جلنے اور شادی کے کھانے پینے کی الگ خوشی۔ رمضان سے لے کر بقرعید جیسے تہواروں تک کی مَسرت اور ہر سال دو مہینے کی چھٹیوں تک کی پوری منصوبہ بندی۔ اب ظاہر ہے اکثر چیزیں ہماری زندگی میں سے اب بھی کہیں نہیں گئیں، لیکن ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں، گھر بھر کی ذمہ داریوں نے ہمیں گویا کچل کر رکھ دیا، تبھی بچپن اور خوشیاں کہیں کھو کر رہ گئیں، بقول ابن انشا
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں!
زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے، باقی زندگی بھی ایسے ہی گزر جائے گی۔ اس لیے اگر آپ واقعی جینا چاہتے ہیں، تو آج خود سے سوال کیجیے اور اپنے اردگرد سے انھی خوشیوں کو دوبارہ جی لیجیے، شاید آپ کی شکایت کچھ دور ہوجائے!
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)