سمے وار (خصوصی رپورٹ)
حالیہ دنوں میں “ڈی ایچ اے” کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے مختلف مقامات پر یوم آزادی کے جو بینر آویزاں کیے گئے ہیں، اس میں حیرت انگیز طور پر پس منظر میں رہ جانے والے اکابرین تحریک آزادی کی تصاویر کا سلسلہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
ماضی میں مختلف سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے بابائے قوم کے علاوہ بہ مشکل دو سے تین شخصیات کے پورٹریٹ ہی دیکھے جاتے تھے، لیکن اس بار ڈی ایچ اے کراچی نے تاریخ پاکستان سے بہت سی شخصیات کو منتخب کرکے اپنے یوم آزادی کے بینروں کو سجایا ہے، جن میں ایسے بزرگان بھی شامل ہیں، جو پاکستان بننے سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ اگرہ علامہ اقبال بھی 1938 میں دنیا سے جاچکے تھے، لیکن اس کے باوجود انھیں اہم قومی دنوں پر یاد رکھا جاتا ہے اور ان کے یوم پیدائش پر عام تعطیل بھی دی جاتی ہے، باقی اکابرین کو جو بالخصوص ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، انھیں نظر انداز کردیا جاتا تھا، یہاں تک کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تک کو باقاعدہ تعصب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ڈی ایچ اے کراچی کی حالیہ جشن آزادی مہم میں نہ صرف اس کا ازالہ کیا گیا ہے، بلکہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے “شیر بنگال” اے کے فضل الحق کو بھی اپنے بینر میں جگہ دی ہے، جو کہ قابل تحسین عمل ہے۔ یہی نہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکا بھی “جدوجہد آزادی کے ہیرو” نام بینر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا شوکت علی بھی اسی بینر میں جلوہ گر ہیں۔ دیگر شخصیات میں سر عبداللہ ہارون کو تو اگرچہ سندھ سے تعلق کی بنا پر یاد رکھا جاتا ہے، چوہدری رحمت علی کا ذکر بھی کہیں نہ کہیں آجاتا ہے، صاحب زادہ عبدالقیوم خان خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ رہے۔
ڈی ایچ اے کراچی کے اس اقدام کو اہل دل حلقوں نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے نئی نسل کو جدوجہد آزادی کے تمام ہیروئوں سے بلاتفریق تعارف کی پہلی کوشش قرار دیا ہے۔