Categories
Karachi MQM PPP پیپلز پارٹی ڈاکٹر شاہد ناصر سمے وار بلاگ سندھ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

مظہر عباس، آخر آپ کی الجھن کیا ہے؟

(تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر)
”آپ، وہ، جی مگر یہ سب کیا ہے، تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں“
ہمیں ایسا لگا کہ جون صاحب نے شاید یہ مصرعے حضرت مظہر عباس کے لیے ہی کہے ہیں۔ مظہر عباس، آج کے اتنے بڑے صحافی، سب سے بڑے خبری چینل پر موجود، اتنے مضبوط اور مستحکم پس منظر، وسیع مطالعہ، تجزیے کی صلاحیت، مضبوط اعتماد اور قوت ارادی رکھنے والے صحافی ہونے کے باوجود پتا نہیں کیوں وہ مصلحت کا شکار ہیں۔
ان کا المیہ نیا نہیں ہے۔ وہی جو آج کی کراچی کی صحافت کا المیہ ہے وہی ہے۔ یہاں اب کراچی کے اوپر ہونے والے مظالم دکھانے کے لیے کوئی معتبر قلم موجود نہیں رہا۔ پہلے بھی جو اِکا دُکا تھا، وہ سبھی گزر گئے، لیکن اب بھی کراچی کے صحافیوں سے اسکرین یا اخبار خالی تو نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ وہ صدا کیوں بلند نہیں کر رہے۔ ہم نے مظہر عباس کا ذکر کیا۔ مظہر عباس اکثر کراچی کے بلدیاتی مسئلے اور ناگفتہ بہ صورت حال پر لب کشائی فرماتے ہیں، لیکن انتہا یہ ہے کہ ہم نے دنیا نیوز کے یوٹیوب چینل کے لیے ان کے انیق احمد کے کیے گئے انٹرویو کا وہ ٹکڑا دیکھا کہ جس میں انھوں نے کراچی کی زبوں حالی پر مفصل گفتگو کی۔ دس منٹ اور اٹھارہ سیکنڈ کے اس ٹکڑے میں مظہر عباس کراچی کی حالت زار کو نہایت دکھی انداز سے بیان کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کراچی والوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو ایک چھتری تلے ہونا چاہیے، کراچی کو بانٹ دیا گیا ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، یونیورسٹی روڈ پانچ سسال سے اب تک نہیں بن سکی، یہ غلط ہے، کراچی بہت پھیل گیا ہے کہ خوش آمدیدکا بورڈ کہیں نہیں ہے کہ کہاں بتائیے کہ کراچی کہاں ختم اور کہاں شروع۔ ۔ ۔ مگر اس پورے دس منٹ کی گفتگو کے بعد انیق احمد لقمہ دیتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں کہ اس صورت حال میں پیپلپزپارٹی کتنی ذمہ دار ہے، وہ سترہ سال سے یہاں برسراقتدار ہے؟
اس پر مظہر عباس نے آخر کے چند سیکنڈ میں بہ مشکل یہ اعتراف فرمایا کہ بہت زیادہ ذمہ دار ہے، پتا نہیں کیوں نہیں کیا، حالاں کہ اس سے پیپلزپارٹی کو بہت فائدہ ہوتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بقول جون ایلیا
”آپ، وہ، جی مگر یہ سب کیا ہے، تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں“
یعنی انتہا ہے کہ دس منٹ تک کراچی کی تباہی کا ذکر کر رہے ہیں اور مجال ہے کہ کہیں اس کی ذمہ داری کا کوئی حصہ پیپلزپارٹی پر ڈالا ہو۔ ارے کراچی تباہ ہوگیا، کھنڈر ہوگیا اور بقول آپ کے کہ اس کی بہتری کی کوئی امیدنہیں ہے، تو کون ذمہ دار ہے اس کا؟
یہ کون سی صحافت اور کیسا تجزیہ ہے کہ آپ تباہی کا ذکر کریں اور تباہ کرنے والوں کے لیے منہ میں گھنگیاں ڈالے بیٹھے رہیں؟ یہ مصلحت ہے، منافقت ہے، بزدلی ہے یا کیا ہے؟
مظہر عباس صاحب، آخر کب تک آپ ڈھکے چھپے انداز میں کراچی کا مقدمہ پیش کرکے خود کو بری الذمہ سمجھنے کی غلطی کرتے رہیں گے؟ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ کراچی کی تباہی اور کراچی والوں کے مکمل حقوق کے لیے آپ کو یہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔ آپ کون سی بغاوت کی بات کر رہے ہیں کہ بااثر قوتیں ناراض ہوجائیں گی؟ کیا آپ کو دیہی سندھ کے وڈیروں سے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہے؟ یا پھر آپ بھی نام نہاد لبرلوں کی طرح بھٹو خاندان کی غلامی کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں۔ مطلب کراچی تباہ ہوگیا، کراچی کی تباہی کا حال خود بیان کر رہے ہیں اورمنہ سے ایک لفظ نہیں نکل رہا کہ کراچی کو کس کس طرح برباد کیا جا رہا ہے۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں اور جتنا تباہی کا کردار منظر عام پر آتا ہے اس سے زیادہ جانتے ہیں، لیکن آپ جرا¿ت نہیں کر رہے ۔ آخر کیوں نام نہیں لیتے؟ خدارا، اپنے شہر اور اپنے شہر والوں پر رحم کھائیں اور کچھ حق ان کا بھی ادا کریں۔ کراچی کو سیاسی آزادی دلوائیں اور کراچی کی تباہی پر ایسے خالی خولی اور کھوکھلے نوحے کہنے کے بہ جائے کچھ منہ سے ارشاد فرمائیں اور بتائیں کہ کس طرح سندھی وڈیرا تعصب میں اندھا ہو کر کراچی کا استصحال کر رہا ہے۔ کراچی والوں کے ساتھ ان کے اپنے شہر میں کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ بولیے۔ اب نہیں تو کب ؟ آخر کب؟
مظہر عباس آپ آزادی صحافت اور حقوق انسانی کے علم بردار ہیں، کراچی والوں کے حقوق نہیں ہیں؟ یا کراچی والوں کو آپ انسان نہیں سمجھتے؟آخر آپ کی الجھن کیا ہے؟
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights