تحریر: رضوان طاہر مبین
اس سماج میں جب بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق، اپنے شہر اپنے لوگوں کے حوالے سے کوئی ایک لفظ بھی کہا، ہمیشہ مختلف حلقوں نے فٹ دینے سے غداری کا الزام دیا، متعصب کہہ دیا، کچھ نے منہ بنا کر کسی سیاسی چھاپ سے نتھی کر ڈالا ظاہر ہے کوئی جواب تو نہ ملا، لیکن اپنے باطن کی تسکین تو ہو ہی گئی!
جب کہ ہم وہ، جنھیں اسکولوں میں ”پاکستانی بچوں“ کے نام سے ایک سبق میں ’چار صوبوں کی ثقافتیں‘ دکھائی گئیں، سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون۔ ہم وہ، جنھیں کبھی یہ سوچ ہی پیدا نہ ہوئی کہ وہ خود کون ہیں۔۔۔؟ قومی دنوں پر ’سندھی ہم، بلوچی ہم، پنجابی ہم اور پٹھان ہم‘ جیسے بے تکے نغموں پر سرمستی سے جھومتے رہے، وہ تو بہت بعد میں مانی کے پروگرام کے توسط سے پہلی بار یہ جملہ کان میں پڑا کہ اس میں پاکستانی کہاں؟ تو تب پہلی بار سوچا تھا کہ واقعی کس قدر بنیادی سوال ہے، جو کبھی ہمارے ذہن میں ہی نہیں آیا
اسکول کے زمانے تک شعور بھی پاﺅں پاﺅں چلتا تھا، ہلکی پھلکی چیزیں ہضم کرتے گئے، ہمارے گھروں میں ’پاکستانی حب الوطنی‘ کا ماحول اس قدر پختہ تھا کہ یہ باتیں ہم کسی خاطر میں نہیں لائے۔ ہمیں قومیتوں کی بات کرنا نرا تعصب اور نامناسب دکھائی دیتا تھا لیکن صاحب، جب اپنے محلے سے باہر نکلے، کالج میں قدم رکھا، نئی دنیا، نئے لوگ، گردوپیش، بھانت بھانت کی قومیں، اور ان کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ تو معلوم چلا میاں، ابھی تک آپ بہت چھوٹے سے کنویں میں قید تھے، باہر نکلے ہیں، توکسی کے بتانے کی ضرورت نہیں پڑی، ہر چوک پر پتا چل گیا کہ تم کون ہو؟
اور اس دن تو حد ہی ہوگئی جب کالج یونیفارم کی بنا پر کراچی انٹر بورڈ میں ایک لسانی تنظیم کے کارکنوں نے یرغمال بنایا اور پشتون نہ ہونے پر خوب ہراساں کیا، حبس بے جا میں رکھا اور ایسا کہ جان کے لالے پڑنے لگے تھے۔ اور یہ سب اس وقت ہوا، جب شہر میں لسانیت کو قصہء پارینہ بنے ہوئے بہت زمانے بیت چکے تھے۔ تب سوچا کہ ہم کون ہوں۔۔۔؟
اور کیا یہ میرا ہی شہر ہے۔۔۔؟ یہ میرا ہی ملک ہے۔۔۔؟
اور پھر جب کمپیوٹر سیکھنے کی کلاس میں ساجھے دار ایک دوسری قوم کے لڑکے نے یہ کہا تھا ’یار جب انڈیا ہارتا ہے تو تمھیں دکھ نہیں ہوتا؟‘
سچ پوچھیے تو یہ ایک زور دار دھماکا تھا۔ کسی ایٹم بم جیسا دھماکا!
ارے کیا مطلب ہے اس بات کا۔۔۔؟
یعنی کہ دوسری قوم کے ایک نوعمر بچے کو اس کے ماحول نے یہ بتایا ہے کہ ہم دراصل ’ہندوستانی‘ ہیں تو اس لیے ہمیں ہندوستان کے ہارنے پر دکھ ہوتا ہوگا۔۔۔!
اس لمحے یہ سمجھیے کہ نام نہاد حب الوطنی کی عمارت کی کھوکھلی بنیادیں ڈھے کر رہ گئیں، اور ہم وہ جو عجیب جنون اور دیوانگی کی حد تک ہندوستان سے نفرت کرتے تھے، ہمارے نصاب اور یہ سب ہمارے ماحول کا صدقہ تھا کہ ہمارا بس نہیں چلتا تھا کہ ’ازلی دشمن‘ ہندوستان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں۔ رہی بات ہندوستان پاکستان کے کرکٹ میچ کی تو یہ دن ہمارے لیے کسی جنگ کی طرح ہوتا اور پاکستان کی شکست پر ہمارے کلیجے پر اتنا گہرا گھاﺅ لگتا کہ کیا بتائیں، ایک سوگ کے عالم میں ہوتے تھے، اور کہاں یہ لڑکا ہم سے پوچھتا ہے کہ تمھیں ہندوستان کے ہارنے پر دکھ نہیں ہوتا۔۔۔؟
کتنی عظیم ہیں ہماری مائیں، ہماری نانی، ہماری دادی کہ انھوں نے اس نئی مملکت کے صدقے ہمیں کبھی اپنی جنم بھومی سے جوڑنے کی کسی بھی طرح کی کوشش ہی نہیں کی۔ خود پرکھوں کی اپنی پرانی دلی سے سدا کے لیے کٹ کر رہ گئیں، لیکن کبھی ایک مرتبہ بھی ایک لفظ زبان سے ایسا ادا نہیں کیا کہ ہمارے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کوئی بال پیدا ہونے کا خدشہ ہو، شاید یہی سبب ہے کہ نانی اماں نے اپنے بچپن کی پرانی دلی کے قصے بہتیرے سنائے، وہ بہت دیر تک تصورات میں وہاں بھٹکتی بھی رہتیں، لیکن بس صبر شکر کیا، اس نئی زمین کو ہی اپنا جانا۔ کتنی عظیم مائیں تھیں ہماری، جنھوں نے چار قومیتوں کے شور میں ہمیں کبھی یہ نہیں سکھایا کہ ہم ”ہندوستانی“ ہیں یا ’مہاجر‘ ہیں یا اور کوئی دوسری قوم ہیں۔ تبھی تو ہمارے اندر کبھی ذیلی شناخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔
ہم تو بٹوارے کے 40 سال بعد یہاں کی کدورتوں اور عداوتوں کے باوجود بھی مسلمان اور صرف ’پاکستانی‘ بنائے گئے۔ حالاں کہ ’پتنگ‘ کے سائے میں آنکھ کھولی اور سارا بچپن گزارا۔ 14 اگست کے بیجوں کے ساتھ ہمارے گھر میں سہ رنگی پتنگ کے بیج بھی آئے۔ ’مظلوموں کا ساتھی ہے“ کی صدا بچپن سے کان میں پڑی۔ ”آیا ’ایم کیو ایم‘ کا زمانہ، اب کے مہر پتنگ پر لگانا“ مگر اس کے باوجود ہماری ماﺅں نے کبھی ’مہاجر‘ ہونے کا درس نہیں دیا۔ ’مہاجر‘ لفظ ملا تو فقط کہیں دیواروں پر لکھا ہوا، تو اس کا پہلا تاثر صرف سیاسی تھا کہ جو ’ایم کیو ایم‘ کا ہوتا ہے وہی ہوتا ہوگا مہاجر۔۔۔!
اب بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ جہاں ہم شناخت کراتے پھریں کہ ہم مہاجر ہیں، سو دل جمعی سے صرف اور صرف پاکستانی تھے، لیکن جب گھر سے نکلے، شعور بڑھا، نفرتیں جھیلیں، تعصب بھگتا، معیار کا فرق دیکھا، تو ماحول نے سکھایا کہ بیٹا، ہو تو تم دوسرے درجے کے شہری، تم مہاجر ہو۔۔۔!
کالج سے آگے بڑھے، یونیورسٹی پہنچے تو اس عمل کو اور مہمیز ملا، دس طرح کے لوگوں سے میل جول بڑھا، لکھنے والے نام نہاد باشعوروں کے خراب رویے دیکھے، زہر میں بجھے ہوئے لہجے سنے، نفرت انگیز الفاظ پڑھے، تو اچھی طرح سمجھ میں آگیا وہ سبق، جسے ہر ممکن حد تک ہماری نانی نے اور ہمارے والدین نے ہم سے پوشیدہ رکھا تھا۔
بہرحال الحمد للہ، یہ اس ریاست جیسی ایک زمینی حقیقت ہے، ہم مہاجر ہیں، اور یہ شناخت اس ملک کی پانچویں قومیتی شناخت ہے! اور ہم وہ مہاجر ہیں، جنھوں نے اس ملک کے لیے تحریک چلائی، ہم وہ ’ہندوستانی مسلمانوں‘ کے نمائندے اور نسل ہیں، جنھوں نے 1946ءکے انتخابات میں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی مخصوص 30 میں سے 17 نشستیں جیت کر پاکستان کی تائید کی۔ باقی 13 نشستیں بنگال، پنجاب اور سندھ کی تھیں۔
افسوس آج سارے ”ہرے“ اور ”لال“ دانش وَر پاکستان کے صوبوں کی قربانیوں اور ان کی نام نہاد جدوجہد کے رونے گانے تو خوب کرتے رہتے ہیں، لیکن بھاری اکثریت کے وہ 56 فی صد ووٹ، جو اگر نہ ملتے، تو مسلم اکثریتی صوبوں کے باوجود پاکستان کا قیام ممکن ہی نہیں تھا۔ اصل قربانی اور بنیادی قربانی ان ’ہندوستانی مسلمانوں‘ نے دی تھی۔ ہندوستان کے ان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے، جو کبھی پاکستان کے وجود کا حصہ بھی نہ بن سکے۔ جن کے نصیب میں آج بھی دشنام ہے، گالیاں ہیں، جن کی تقدیر میں آج بھی غداری ہے، طعنے تشنے ہیں، جن کے لیے اس ملک کے دانش وَروں کے ہاں بھی کم ہی گنجائش ہے، جن کے لیے صرف دو بول بولتے ہوئے سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کیا غلط ہے کہ اگر وہ خود کو بانیان پاکستان کہتے ہیں؟
کیا بنگال اور پنجاب کی چھے، چھے اور سندھ کی ایک نشست تنہا پاکستان بنا سکتی تھی۔۔۔؟؟
لیکن یہ پروپیگنڈے کا دور ہے، جو زیادہ شور مچائے گا وہی سچ کہلائے گا، تو موجودہ صوبوں کا شورمچانے والے میسر ہیں، اس لیے سندھ کی قربانی اور بنگال کی قربانی کا شور مچتا ہے، کچھ پنجاب کی حصے داری کی بات کرلیتے ہیں۔ اور اصل 17 نشستوں والوں کا کوئی نام لیوا ہی نہیں۔ الٹا وہ ہجرت کر کے یہاں آئے تو انھیں 75 سال بعد بھی شناخت کا بنیادی حق حاصل نہیں۔ یہ بھولے سے ایک چوں بھی کرلیں، تو ریاستی اہل کاروں کا خوف مسلط کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانیت گھول کر پینے والوں کو ’غدار‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مہاجر اپنے الگ صوبے کی بات کریں، تو چار لسانی صوبوں کے سائے میں اسے نفرت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے نہ تو مذہبی زعما ساتھ دیتے ہیں اور نہ غیر مذہبی کہ وہ تو ہیں ہی نام نہاد لبرل، وہ چار صوبوں سے آگے دیکھنے کی سکت ہیں نہیں رکھتے۔
تو صاحب ایک یہ بھی ہے پچھلی پون صدی کا المیہ۔۔۔!
یہ ہے ہم مہاجروں کے آباو اجداد پر عائد ایک مختصر سی فردِ جرم۔ کہ وہ اس ریاست میں مجموعی طور پر بدستور دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری ہیں، یہاں ان کے خود کو ’مہاجر‘ کہنے پر مذاق اڑایا جاتا ہے، بودے اور فضول ”دلائل“ لائے جاتے ہیں کہ بھیا تم نے تو ہجرت نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔ حالاں کہ یہ بحث نمٹ چکی ہے کہ مہاجر لغوی معنی میں نہیں ہیں اب یہ پاکستان کی ایک لسانی شناخت اور الگ قوم ہے اور انھیں اس ملک کا 56 فی صد نہ سہی کم سے کم برابر کے شہری ہونے اور اپنی شناخت اور آزادی کے ساتھ جینے اور اپنی بات کہنے کھل کر اظہار خیال کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ نہیں چاہیے ہمیں کسی سے اپنی حب الوطنی اور پاکستانیت کا سرٹیفکیٹ! ہم تو وہ قوم ہیں جو اگر خود کو ’مہاجر‘ کہتے ہیں تو اس میں ’پاکستان‘ اور ’پاکستانیت‘ اپنے آپ سمٹ آتی ہے، کیوں کہ ہم مہاجر ہوئے، تو صرف اس ملک ہی کی خاطر! ورنہ ’ہندوستانی‘ کہلاتے!