کراچی: شہری حاکمیت کا ہما کس کے سر بیٹھے گا؟
معاشی دارالحکومت کی نمائندگی کی خبر دینے والا بلدیاتی معرکہ آن پہنچا
رضوان طاہر مبین
@RizwanTahirMbin
کراچی میں آج ہونے والے بلدیاتی انتخابات دسمبر 2015ءکے گذشتہ بلدیاتی انتخابات کے مقابلے میں کئی حوالوں سے متنازع، منفرد اور مختلف ہیں۔ اس میں سب سے بڑا فرق 2015ءکے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ پر کڑی پابندیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندیوں کا معاملہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں نئے اضلاع اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے فرق اور اس پر اعتراضات بھی ایک نمایاں عنصر ہیں، مزید یہ کہ عدالتی احکامات کے باوجود اس بلدیاتی چناﺅ کا کئی بار التوا کا مسئلہ بھی آخری دن تک ڈرامائی انداز میں جاری رہنا بھی اب اس کی ایک ممتاز کیفیت گنی جائے گی۔
کہنے کو بلدیاتی انتخابات صرف کراچی اور سندھ کے کچھ اضلاع ہی میں ہو رہے ہیں، لیکن شہرِ قائد کا انتخابی معرکہ ملک بھر کے تجزیہ کاروں کی دل چسپی کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک انگریزی معاصر سے منسلک ممتاز صحافی انصار عباسی نے تو باقاعدہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کو ووٹ دینے کی اپیل بھی کر دی ہے۔ الغرض سب کی نگاہیں آج کراچی پر اس لیے مرکوز ہیں کہ اس بلدیاتی دنگل کے ذریعے ملک کے اس بیدار اور سیاسی شعور رکھنے والے شہر کی سیاسی نمائندگی میں بدلاﺅ یا استقامت کا کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی جا سکے، جو ظاہر ہے کہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوگا۔ تاہم اس شہر میں بہت سے ایسے رائے دہندگان بھی موجود ہیں، جو اپنی سیاسی اور نظریاتی وابستگی اور پسند و ناپسند کے حوالے سے اچھی خاصی لچک رکھتے ہیں اور وہ عام انتخابات میں جس طرح قومی اور صوبائی حلقوں کو الگ الگ دیکھتے ہیں، بالکل ایسے ہی بلدیاتی معاملے کے حوالے سے بھی ایک بالکل مختلف رائے پیش کرتے ہیں، ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ دراصل ’بلدیات‘ کے حوالے سے فلاں امیدوار یا فلاں جماعت کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔ شاید ایسے رائے دہندگان اکثریت میں نہ ہوں، لیکن ان کی ایک بہت بڑی تعداد ضرور موجود ہے۔
کسی بھی اندازے کے لحاظ سے کراچی کے یہ بلدیاتی انتخابات پہلے سے بہت الگ اور مختلف ہیں، کیوں کہ 2015ءمیں آپریشن کے باوجود ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کو اگر 207 میں سے 135 نشستوں پر اتنی واضح کام یابی ملی تھی، تو وہ آج سے ایک بالکل الگ ’ایم کیو ایم‘ تھی، جس کی قیادت ’بانی متحدہ‘ کے سپرد تھی، جو 2016 ءکے بعد سے ’بہادر آباد‘ میں موجود تنظیم کے ساتھ نہیں اور سیاسی آزادی حاصل نہ ہونے کے باعث 2018ءکے عام انتخابات کی طرح آج کے بلدیاتی انتخابات کا بھی مکمل بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کس قدر نکلتے ہیں۔
’اے آر وائی نیوز‘ کی ویب سائٹ کے مطابق 2013ءکے عام انتخابات کے 55 فی صد ٹرن آﺅٹ کے مقابلے میں 2018ءکے انتخابات میں ٹرن آﺅٹ 40 فی صد رہا، صرف ملیر میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ایسا تھا، جہاں ٹرن آﺅٹ 50 فی صد تک پہنچ سکا تھا۔ روزنامہ ’ڈان‘ کے مطابق کراچی میں 2015ءکے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آﺅٹ 36 فی صد رہا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کے انتخابات میں ٹرن آﺅٹ کی صورت حال کیا رہتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کراچی کے بعضے حلقے بہ مشکل 10 سے 15 فی صد ٹرن آﺅٹ تک پہنچ سکے تھے۔ آج کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آﺅٹ کا ایک بڑا امتحان ہے، تاکہ یہ تجزیہ کرنے میں آسانی ہو کہ کراچی میں ’بائیکاٹ‘ کی اپیل کا مجموعی طور پر کتنا اثر ہو سکا ہے۔
آج کے انتخابات کے تعلق سے ’ایم کیو ایم‘ (بہادر آباد) بلدیاتی حلقہ بندیوں پر شدومد سے متحرک ہوئی اور عدالتوں سے اِس حوالے سے حکم امتناع بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر یہ دعویٰ بھی کیا کہ حلقے درست کیے بغیر ہم یہ انتخابات ہونے نہیں دیں گے۔ بعد میں حکومت سندھ نے بھی اِن کی آواز سے آواز ملائی، لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے ’حکومت سندھ‘ کی معذوری کو دونوں مرتبہ مسترد کر دیا گیا۔
متنازع بلدیاتی حلقہ بندیوں کے خلاف ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی جماعت اسلامی کے مرکز ’ادارہ¿ نور حق‘ بھی گئے، لیکن اس معاملے پر مجموعی طور پر حافظ نعیم نے زیادہ لحاظ داری کا مظاہرہ بھی نہیں کیا اور حلقہ بندیوں کو موقع پر نہ رکوانے کا سوال بھی اٹھایا۔ پھر غالباً جماعت اسلامی کو ایسے غیر مہاجر علاقوں سے بھی ووٹوں کی امید ہے، جہاں دیگر شہر کی نسبت زیادہ حلقے بنائے گئے ہیں، ساتھ ہی حافظ نعیم الرحمن ’ایکسپریس‘ کو 16 اکتوبر 2022ءکے اپنے انٹرویو میں کہہ چکے کہ ’فی الوقت بلدیاتی انتخابات ہو جانے چاہئیں، اگر حلقہ بندیاں درست ہونے کا انتظار کریں گے تو یہ انتخابات زیر التوا ہی رہیں گے۔‘
اگر ہم 2015ءکے بلدیاتی انتخابی نتائج کو سامنے رکھیں، تو کُل 207 میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کو 24 نشستیں مل سکی تھیں، مئیر کے امیدوار نجمی عالم بھی ضلع جنوبی میں شکست سے دوچار ہوئے تھے، جب کہ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے تعاون سے سات نشستیں حاصل کی تھیں، جس میں تحریک انصاف کے میئر کے متوقع امیدوار علی زیدی بھی ہار گئے تھے اور انھوں نے بہ یک وقت دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا اور ’ایم کیو ایم‘ کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں ووٹ دینے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ یہ تو ہو گیا پس منظر، اس انتخابات کے تین ماہ بعد ہوا یوں کہ اچانک دبئی سے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور سابق ڈپٹی کنوینئر انیس قائم خانی کا ’ظہور‘ ہوا اور کراچی کی سیاست میں ایک نیا بھونچال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی روزانہ ’پتنگیں‘ کٹنے کی پریس کانفرنسیں ہوتیں، کہ آج فلاں رکن مصطفیٰ کمال کے ساتھ ہوگیا اور آج فلاں راہ نما منحرف ہو کر ان کا ہم خیال ہوگیا۔ اس سارے کھیل میں کارکنان کے قتل، لاپتا اور چھاپوں کے خلاف کراچی پریس کلب پر ایک احتجاجی کیمپ میں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے مشتعل ہو کر ریاست مخالف نعرے بلند کر دیے، جس کے بعد 23 اگست 2016ءکو ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں پوری تنظیم کو اپنے قائد الطاف حسین اسے لگ کرلیا اور پھر بہ تدریج ’لندن‘ گروپ سے فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ لہٰذا یہ بانی متحدہ کے بغیر یہاں موجود تنظیمی دھڑے کا بھی پہلا بلدیاتی امتحان ہے۔ جس کے لیے کراچی میں موجود ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے بھی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں موجود ’ایم کیو ایم‘ کو مضبوط کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ آج اس ’اتحاد‘ کی عوامی جانچ بھی ہو جائے گی کہ کیا واقعی ان کی گذشتہ شکستوں کی وجہ ان کا انتشار تھا اور ان کے مل بیٹھنے سے کوئی قابل ذکر اثرات نکلیں گے یا نہیں۔
کہیں اس اتحاد سے ایسا نہ ہو کہ ’بہادر آباد‘ گروپ جو ’بانی متحدہ‘ سے ہمدردی رکھنے والوں کے بھی کچھ نہ کچھ ووٹ لے لیتا تھا، وہ بھی مصطفیٰ کمال کی جانب سے روایتی ’بانی مخالفت‘ کے باعث چھن جائے، یعنی عملاً ایم کیو ایم (بہادر آباد) صرف ایک بڑی ”پی ایس پی“ بن کر رہ جائے۔ کیا خبر یہ شمولیت بھی ’ایم کیو ایم‘ کو اس طرح دفن کرنے کے مشن کا حصہ ہو۔ بہرحال، مصطفیٰ کمال کو ملنے والے ووٹ الطاف مخالف ہی نہیں ’ایم کیو ایم‘ مخالفت میں بھی ہوتے تھے، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سارے کے سارے ووٹ اب ان کی یہاں شمولیت کی وجہ سے ’پتنگ‘ کو مل جائیں، کیوں کہ بہت سے ’پی ایس پی‘ کے حامی بھی اِن سے دور ہوں گے، جن میں ’پاک سرزمین پارٹی‘ کی ایک تنظیمی باڈی کے مرکزی عہدے دار نے چند دن پہلے ہمیں بتایا کہ مصطفیٰ کمال ’ایم کیو ایم‘ میں جا رہے ہیں، لیکن وہ غیر فعال ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے۔
2018ءکے عام انتخابات کے نتائج دیکھیے، تو ’بہادر آباد‘ گروپ کو کراچی میں فقط چار قومی اسمبلی کی نشستیں مل سکی تھیں، اور مصطفیٰ کمال کے ہاتھ خالی رہے تھے، کراچی کی بیش تر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں جاگری تھیں۔ متحدہ نے 2013ءمیں ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ تحریک انصاف کو پڑنے کے باوجود اس بار بھی دھاندلی اور بے ضابطگی کا الزام دُہرایا، اس کے درست اور غلط ہونے سے قطع نظر کراچی میں تحریک انصاف کے لیے اِس لہر نے کچھ نہ کچھ کام ضرور دکھایا۔ اور یہ اِس لہر کے بعد تحریک انصاف کے لیے بھی کراچی میں پہلی بلدیاتی آزمائش ہے۔
اب رہ گئی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ تو ’ایم کیو ایم‘ کی ٹوٹ پھوٹ میں حصہ بہ قدر جثہ حاصل کرنے کے لیے اب یہ بھی امیدوار بن چکی ہے۔ 15 برس سے مسلسل صوبے میں حکم راں اس جماعت کی کارکردگی کی گواہ ہر گلی اور سڑک ہے، لیکن اس نے بھی یہاں نقب لگانے کی پوری سعی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لیکن بہت سے لوگ اور کچھ ’نظریاتی کارکنان‘ جنھیں بہت سے محکموں میں کھپا کر ’جیالا‘ کر دیا گیا ہے، یہ ہماری آنکھوں کے سامنے کی باتیں ہیں۔ یہ سب کراچی کے تجزیہ کاروں کو کچھ حیران ضرور کر رہا ہے، اور یہ امر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا پس پردہ وجوہات کچھ بھی ہوں، رہی ہوں یا آج شام تک ہو جائیں، کُل ملا کر خلاصہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اس بار اچھی خاصی امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ بلاول صاحب نے تو شہر قائد کا آئندہ میئر جیالا ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ چند ماہ سے شہر میں کہیں کہیں جدید اور آرام دہ سرخ ’پیپلز بس سروس‘ بھی کراچی کے شہریوں کو متاثر کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور آج کے انتخابات سے ایک روز پہلے ’برقی رو‘ سے چلنے والی 50 جدید بسیں سڑکوں پر آنے کا اشتہار بھی کل کے اخبارات کی زینت بنا ہے۔ پتا نہیں ہمارا ’الیکشن کمیشن‘ اس سارے عمل کو کس طرح دیکھتا ہے، جب کہ یہاں کورنگی روڈ کے ’خیابان اتحاد‘ کے سگنل پر پیپلز پارٹی (سکھر) کے انفارمیشن سیکریٹری کی جانب سے بھی ایک انتخابی بل بورڈ آویزاں کیا گیا ہے، جس میں غیر متوقع طور پر مرتضیٰ وہاب غائب ہیں، جب کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سعید غنی، صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ اور دیگر بھی جلوہ افروز ہیں۔
ان سب کے پس منظر میں کراچی میں ضلع ’غربی‘ کو کاٹ کر ساتواں ضلع ’کیماڑی‘ بنا کر بھی پیپلز پارٹی نے اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کی ہیں اِس طرح ملیر اور جنوبی کی طرح ضلع کیماڑی بھی اس کا ایک آسان انتخابی ہدف معلوم ہوتا ہے، اور اس فہرست میں ضلع ’غربی‘ بھی شامل ہو سکتا ہے، باقی عوامی آرا سے قطع نظر کراچی کے دیگر تین اضلاع سے بھی اگر کچھ نہ کچھ مل جائے، تو اِس بار پیپلز پارٹی کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ ’تحریک لبیک‘ (ٹی ایل پی) بھی پہلی بار کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں اپنا حصہ نکالنے کی پوری کوشش کرے گی۔ جمعیت علمائے اسلام اور ’اے این پی‘ کے حصے میں کیا آئے گا اور ’بہادر آباد گروپ‘ میں ضم ہونے سے انکار کرنے والے آفاق احمد کی ’مہاجر قومی موومنٹ‘ اِس بار کتنی جگہ نکال پائے گی، آج شام تک یہ سب واضح ہوتا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چوکھٹے
حافظ نعیم الرحمن کی بھرپور نبض شناسی
اگر کراچی کی موجودہ فعال سیاسی قوتوں کا تجزیہ کیا جائے، تو جماعت اسلامی اس شہر کی ایک مستقل اور مستحکم سیاسی قوت رہی ہے، تحریک انصاف کی گذشتہ لہر سے اِس کی سیاسی پوزیشن پر سوال ضرور ہے، لیکن جو سیاسی تنظیم اور نظم وضبط جماعت اسلامی کراچی میں پایا جاتا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ جسے اصلی ’ایم کیو ایم‘ کے دور میں مسلسل تین عشروں تک اس کی ایک سخت جان حریف کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ماضی میں جس طرح ’ایم کیو ایم‘ کے سب سے زیادہ مینڈیٹ کو اٹل حقیقت سمجھا جاتا تھا، بالکل ایسے ہی اس کے بعد جماعت اسلامی کے واضح مینڈیٹ کے بارے میں بھی بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی۔ ایسی وسیع سیاسی تنظیم یا نظم وضبط کراچی کی تیسری کسی بھی سیاسی جماعت میں موجود نہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے میں جماعت اسلامی کراچی نے جس بھرپور طریقے سے کراچی کے بنیادی مسائل پر آواز بلند کی اور حق تلفیوں کے خلاف باقاعدہ احتجاجی مہم چلائی اور کراچی کے حقوق کے لیے شہر کی تاریخ میں پہلی بار کوئی باقاعدہ مارچ کیا، وہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ اس مہم اور ’مارچ‘ پر بہت سے مذہبی حلقوں نے اِسے ’ناپسندیدہ‘ بھی کہا، لیکن حافظ نعیم کی قیادت میں جماعت اسلامی آگے بڑھتی چلی گئی، یہی وجہ ہے کہ اِس وقت بلاشبہ حافظ نعیم الرحمن میئر کے امیدواروں میں سرفہرست کہے جا سکتے ہیں۔ ان کی مستقل مزاجی سے کراچی کی محرومیوں اور روا رکھے جانے والے تعصب پر بات کرنے سے کراچی میں ان کے سیاسی قدوقامت میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ وہ کسی بھی دوسری جماعت کے مقابلے میں اپنی جماعت سے بہت واضح طور پر میئر کراچی نام زَد بھی کیے جا چکے ہیں، باقی کسی اور جماعت نے میئر کراچی کے لیے کوئی نام واضح نہیں کیا ہے، تجزیہ کار صرف اندازے لگا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی برتری گنی جائے گی۔ اگرچہ 2015ءکے بلدیاتی انتخابات میں وہ تحریک انصاف سے اتحاد کے باوجود بھی میئر کے ایک امیدوار تھے، لیکن اِن سات برسوں میں شہر قائد کا سیاسی منظر نامہ کافی مختلف ہو چکا ہے، جس کے بعد انتخابی نتائج بھی اتنے ہی مختلف ہو سکتے ہیں۔
عملی ’مائنس ون‘ کے لیے آخری بڑی کوشش
12 جنوری 2023ءکو جس پراسرار طریقے سے ’ایم کیو ایم‘ کو دفن کرنے اور اس کے انتخابی نشان ’پتنگ‘ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والے سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال کی ’پاک سرزمین پارٹی‘ کو ’ایم کیو ایم‘ کے ’بہادر آباد گروپ‘ میں ضم کرایا گیا یا کیا گیا، تجزیہ کار اِسے 22 اگست 2016ءکے بعد الطاف حسین کے منظر نامے سے ہٹائے جانے کے بعد کے سیاسی خلا کو پُر کرنے کی آخری بڑی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اسی ’انضمام‘ میں نہ صرف ناراض ڈاکٹر فاروق ستار بھی باہم شیر وشکر ہوگئے، بلکہ مبینہ طور پر کامران ٹیسوری کی پارٹی میں شمولیت سے خفا ہونے والے عامر خان کی بھی اچانک آمد ہوگئی اور اس پریس کانفرنس میں کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے پہلو میں بیٹھنے کو بھی کافی عجیب وغریب صورت حال قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عامر خان بھی یہ چاہتے تھے کہ تنظیم میں دراصل وہ بھی ایک غیر اعلانیہ ’دھڑا‘ ہیں، اس لیے ان کی ’شمولیت‘ کو بھی اس ’انضمام‘ میں شمار کیا جائے۔ بہرحال اِس ساری پریس کانفرنس کے دوران وہ چُپکے ہاتھ باندھے سارا تماشا دیکھتے رہے، یا یوں کہیے کہ اپنا تماشا دکھاتے رہے۔ کتنی دل چسپ بات ہے کہ اِس ’یک جائی‘ کو ڈاکٹر فاروق ستار سے لے کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور مصطفیٰ کمال تک، تینوں نے ہی اپنی کام یابی اور ’منزل‘ قرار دیا اور انھوں نے یہ تاثر دیا کہ اسی دن کے لیے تو ہم سب جدوجہد کر رہے تھے، حالاں کہ شہر کراچی کے باسیوں کا حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں کہ وہ یہ بھی یاد نہ رکھ سکیں کہ ’پسِ پردہ‘ اس ’عظیم اتحاد‘ کے لیے راتوں رات ابھر کر ’بہادر آباد‘ گروپ میں آکر ’گورنر سندھ‘ بن جانے والے کامران ٹیسوری نے جس طرح کھلم کھلا کردار ادا کیا ہے۔ اور پھر وہ سابقہ ’فنکشنل لیگی‘ کامران ٹیسوری، جنھیں ایک سینٹیر بنانے کی ضد پر فاروق ستار نہ صرف اپنی تنظیم سے دور ہوئے، بلکہ اس کی ”سربراہی“ جیسے اہم منصب سے بھی فارغ کر دیے گئے، پھر وہی کامران ٹیسوری ان کے بغیر وہاں آئے بھی اور قبول کرنے والوں نے انھیں ایسے قبول بھی کر لیا، جیسے یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، یوں فاروق ستار خوامخواہ میں ’پس‘ کر رہ گئے۔ اور کامران ٹیسوری کی دوبارہ شمولیت پر عامر خان گروپ نے ”اصولی“ اختلاف کر کے دوری اختیار کی، لیکن اس ”جادوگر“ کی کارکردگی کو سلام ہے، کہ اس کے ایک ’چُھو منتر‘ سے ”ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز!“
”کراچی سب کے لیے؟“
پچھلے بلدیاتی انتخابات کی فاتح ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے موجودہ دھڑے کو تو اس بار فرصت ہی نہیں کہ ڈھنگ سے اپنی انتخابی مہم ہی چلا سکے، ورنہ پچھلی بار انھوں نے ”میئر تو اپنا ہونا چاہیے“ اور ”کام تو اپنے آتے ہیں“ جیسے نعروں کے سہارے بہ آسانی میدان مار لیا تھا۔ اس بار جماعت اسلامی تو سب سے زیادہ اور سب سے طویل انتخابی مہم پر رہی۔ ”حق دو کراچی کو“ کے جلی عنوان کے ذریعے حافظ نعیم شہر کے بیش تر چوراہوں اور اہم شاہ راہوں پر آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر عمران خان کے کراچی پیکیج کے سہارے بات بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن الٹا اُسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی آخری دنوں میں شہر کے مرکزی راستوں میں تیر کے انتخابی نشان کے ساتھ ”کراچی سب کے لیے“ کا نعرہ دیا ہے۔ ان کے اِس نعرے پر شہر قائد کے حلقے شدید معترض ہیں کہ آخر کراچی ہی سب کے لیے کیوں؟ ملک کے باقی کسی شہر کے لیے ایسے نعرے کیوں نہیں دیے جاتے؟ جب کہ کراچی میں مقامی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں کا شدید بحران ہے، انھیں اپنے اقلیت میں بدلے جانے کا خوف بھی لاحق ہو چکا ہے، لیکن وہ پاکستان پیپلز پارٹی جو صوبہ¿ سندھ کے لیے جنون کی حد تک جذباتی رہتی ہے، آخر وہ کیوں ’کراچی سب کے لیے‘ کا نعرہ دے رہی ہے۔
’ترازو‘ کے لیے ’بانی متحدہ‘ کے بیان کی گردش
کراچی کی جیسی تیسی انتخابی مہم کے دوران جہاں بہت سی دل چسپ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں، وہیں راقم کی نظروں سے ایک ایسی ویڈیو بھی گزری جو ’ترازو‘ کی انتخابی مہم کے مقصد سے مشتہر کی گئی تھی، جس میں بانی متحدہ الطاف حسین کی جانب سے کراچی میں موجود ایم کیو ایم (بہادر آباد) گروپ کے راہ نماﺅں اور ذمہ داران پر سخت تنقید اور ان کے پاس بڑھنے والے اثاثوں پر سخت تنقید کی گئی تھی اور ان کی تنظیمی خلاف ورزیوں اور غیر ذمہ داریوں پر بہت کڑے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ قائد متحدہ کا یہ بیان سنتے سنتے شائبہ ہوتا ہے کہ اب بس وہ ’ترازو‘ کو ووٹ دینے کا اعلان کرنے ہی والے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا، البتہ ویڈیو میں جماعت اسلامی اور ترازو کا نشان موجود ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جماعت اسلامی کے ’انتخابی سیل‘ نے کس بھرپور طریقے سے ’بہادر آباد‘ گروپ کو نہ صرف اپنا حریف تصور کیا ہے، بلکہ تاک کر ان کے تدارک کرنے کے لیے انھی کے قائد کے خیالات کو بھی پیش کر دیا ہے، تاکہ الطاف حسین سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ’بہادر آباد‘ گروپ کے بہ جائے اپنی جانب متوجہ کر سکیں، یا کم از کم وہ ’بہادر آبادی‘ پتنگ کو اپنا حریف تصور کرتے ہوئے ’ترازو‘ کو ووٹ دے ڈالیں۔
کچھ تذکرہ غیر منصفانہ حلقہ بندیوں کا
’ایم کیو ایم‘ (بہادر آباد) کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بلدیاتی حلقوں میں کئی گنا رائے دہندگان کا فرق گنواتے رہے، جو کہ بلاشبہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں بھی ایسے ’حیرت ناک‘ فرق موجود ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہاں حلقے بناتے ہوئے کون سی ’بقراطیت‘ برتی گئی ہے!
2017ءمیں 19 سال بعد مردم شماری ہوئی، تو اہل کراچی توقع کرتے تھے کہ قومی اسمبلی میں کراچی کی نشستیں دُگنی نہ سہی، مگر 50 سے 60 فی صد تک تو بڑھ ہی جائیں گی، مگر مردم شماری کے بعد کراچی کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔ رائے دہندگان کے حوالے سے سب سے بڑا ضلع کراچی وسطی، جب کہ سب سے چھوٹا ضلع ملیر ہے، دل چسپ بات یہ ہے کہ بڑھنے والی قومی اسمبلی کی نشست ملیر میں بڑھی، جب کہ ضلع وسطی کی ایک نشست کم کی گئی!
مردم شماری کے اعداد وشمار دیکھیے تو، اسی شہر میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے 242 میں رائے دہندگان ایک لاکھ 83 ہزار 373 ہیں، جب کہ اسی شہر میں ایک حلقہ 247 بھی ہے، جہاں رائے دہندگان کا شمار 5 لاکھ 43 ہزار 964 ہے! یعنی قومی اسمبلی کی ایک نشست کی آبادی، اسی شہر کے دوسرے انتخابی حلقے سے تین گنا تک زیادہ ہے۔ بلدیاتی کی طرح قومی اسمبلی کی حلقہ بندیوں میں رائے دہندگان کی تعداد کو اس طرح نظرانداز کرنا سراسر غیر جمہوری ہے۔ کراچی میں مجموعی طور پر 81 لاکھ سے زائد رائے دہندگان ہیں۔ یہاں دو لاکھ سے کم ووٹروں کی بھی ایک نشست ہے، اگر ہم دو لاکھ ووٹروں پر ایک نشست کا بھی حساب لگائیں، تو کراچی کی قومی اسمبلی کی کم سے کم 40 نشستیں ہونی چاہئیں! اگر کراچی میں پانچ کم ترین ووٹروں والی نشستیں (این اے 236، 237، 238، 242 اور 252) کے ووٹروں کا اوسط نکال کر کل رائے دہندگان پر تقسیم کیا جائے، تو اس حساب سے بھی کم سے کم 35 نشستیں ہونا چاہیں، جب کہ ہیں صرف 21 نشستیں۔ لیکن بلدیاتی حلقہ بندیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی ’ایم کیو ایم‘ (بہادر آباد) اس پر اتنی متحرک یا سراپا احتجاج نہیں، حالاں کہ عام انتخابات بھی رواں برس ہی متوقع ہیں۔