کراچی (سمے وار رپورٹ)
کالم نگار جاوید چوہدری نے 12 جنوری 2023ءکے اپنے کالم میں اپنے تئیں معاشی تجاویز دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”1947ءمیں پاکستان سے 30 لاکھ خاندان ہندوستان گئے تھے، ان کی جائیداد آج بھی پاکستان میں موجود ہیں، حکومت انھیں یہ خریدنے کی اجازت دے دے۔“
کیا جاوید چوہدری جیسا بلند پایہ صحافی اس امر سے لاعلم ہے کہ سینتالیس میں سرحد کی دونوں جانب نقل مکانی کرنے والوں کی جائیداد متروکہ املاک کہلاتی ہے، اور 1950ءکے لیاقت نہرو پیکٹ کے تحت یہ جائیداد نقل مکانی کرنے والوں کی ملکیت ہے۔ یعنی ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان جانے والے ادلے بدلے میں ان املاک کا تبادلہ کریں اور اس طرح سرحد کے پار رہ جانے والے دونوں اطراف کے شہری اپنے اپنے مکانات اور جائیداد حاصل کرلیں۔ آج جاوید چوہدری کیسے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ یہ املاک ہندوستانی شہریوں یا کسی کو بھی فروخت کی جائیں؟ کیا وہ تاریخ سے اتنے نابلد ہیں کہ ہماری تاریخ کی اتنی واضح اور اہم چیز سے بے خبر ہیں۔ یا پھر وہ روایتی طور پر جو منہ میں آتا ہے بلا سوچے سمجھے لکھ دیتے ہیں؟ یا پھر وہ ریاستی عزائم کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں، تاکہ کل کو یہ املاک بیچ کر کچھ روپیا کھرا کیا جاسکے۔ کیوں کہ لٹیرے سیاست دان اور اشرافیہ کے کھانے پینے کے بعد اب یہی کچھ باقی رہا ہے۔ ہم جاوید چوہدری کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ املاک سینتالیس کے مہاجروں کی ملکیت ہیں، چاہے انھوںنے اقلیتی علاقوں سے ہجرت کی ہو یا مشرقی پنجاب وغیرہ سے۔ یہ دو ریاستوں کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہے۔ یہ املاک اس طرح بیچی نہیں جاسکتیں۔
https://www.express.pk/story/2426870/268/ جاوید چوہدری کے مذکورہ کالم کا لنک