سمےوار (خصوصی رپورٹ)
ہندوستانی ریاست اترکھنڈ کے ضلع اترکشی میں ’ہندو توا‘ کی جانب سے گذشتہ کچھ ہفتوں سے ’لَوجہاد‘ کی مزاحمت کے نام پر مسلمانوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ ’لَو جہاد‘ پر تو اپنی رائے دیتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو دھمکانے والے انتہا پسندوں کے حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔
26 مئی کو ایک لڑکی کے اغوا کی ناکام کوشش کے بعد ’لَو جہاد‘ کا شور مچ گیا، جس میں سے بھی ایک ملزم مسلمان حلیہ اختیار کیا ہوا ہندو تھا، لیکن انتہا پسندوں نے کہا کہ یہ ہندو خواتین کو مسلمان کر کے شادی کیے جانے کا سلسلہ ہے، جسے ’لو جہاد‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ سراسر ایک اغوا کا معاملہ تھا۔ وہ لڑکی اغوا کاروں کو جانتی بھی نہیں تھی، لیکن نفتت انگیزی کا سلسلہ بڑھتا گیا 29 مئی 2023ءکو اس حوالے سے ایک ریلی بھی نکالی گئی، جس میں مسلمانوں کے اس علاقے سے مکمل طور پر نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کی دکانوں پر حملے کیے گئے، انھیں دکانیں خالی کرانے کے لیے کی دھمکی دی گئی ، بہت سی دکانوں پر سیاہ رنگ سے کاٹی لگائی گئی۔ مسلمانوں کے لیے باقاعدہ نازی جرمنی کی مثال پیش کی جارہی ہے کہ جیسا انھوں نے ہندوﺅں کے ساتھ کیا تھا، بالکل ایسے ہی مسلمانوں کو بھی یہاں سے نکالا جائے۔ جس کے نتیجے میں شدید خوف وہراس میں مسلمان وہاں سے انخلا کرنے لگے۔
یہاں تک کے ’بی جے پی‘ سے منسلک مسلمان راہ نما اور سربراہ اقلیتی ونگ محدم زاہد بھی اس نفرین آمیز لہر کی لپیٹ میں آگئے اور انھیں بھی ضلع اترکشی کا وہ علاقہ چھوڑنا پڑگیا، جہاں وہ 25 سال سے ملبوسات کے کاروبارسے وابستہ تھے۔ زاہد حسین نے تین برس قبل ’بی جے پی‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ علاقے کے ایک معروف آدمی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم محفوظ نہیں ہیں تو اور کون سا مسلمان وہاں محفوظ ہو سکتا ہے۔ زاہد حسین کے جانے کے بعد سے مسلمانوں میں خوف کی فضا بڑھ گئی اور بہت بڑی تعداد میں مسلمان وہاں سے نکل گئے۔ مقامی پولیس دھڑلے سے تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کہ صرف ایک، دو دکان دار علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں، جو کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔