دل عجب شہر تھا اس شہر میں آبادی تھی
ہنسنے اور بولنے کی کس قدر آزادی تھی
موسم جبر میں بھی پھول کِھلا کرتے تھے
اور خوشبو کی طرح لوگ ملا کرتے تھے
دل شہنشاہِ محبت تھا اور اس کے اطراف
کہکشاں رقص کیا کرتی تھی
اس کے آنگن میں ستاروں سے بھرے موسم کی
سلسلہ وار کمک آتی تھی
کشتیاں اس کے سمندر پہ بہت نازاں تھیں
نشہ وَصل میں ڈوبی ہوئی سرشار ہوا
کیسے اتراتی ہوئی چلتی تھی
کتنے بچھڑے ہوئے قدموں کے نشاں
ساحلی ریت کے دامن میں کہیں
آنے والوں کے لیے روشن ہوا کرتے تھے
ہاں یہی شہر تھاجس میں میرے محبوب غزال
آتے جاتے ہوئے آنکھوں میں دھنک کھینچا کرتے تھے
ہم سے آوارہ ہوا بات کیا کرتی تھی
روشنی دیر تلک ساتھ رہا کرتی تھی
رنگ اور نسل کی پھیلی ہوئی خاموشی میں
ننھے بچوں کی ہنسی گیت بُنا کرتی تھی
اب گزرتے ہیں جو اس شہر کے سناٹے سے
ہر طرف موت کے پھیلے ہوئے وحشی سائے
راستہ کاٹتے ہیں
زندگی مانگنے والوں کا لہو چاٹتے ہیں!
روکتے ہیں ہمیں نادیدہ صداﺅں کے ہجوم
ٹوکتی ہے ہمیں ایک خوف بھری تنہائی
بولتے ہی نہیں بچوں کی ہنسی میں وہ نجوم
جو اسی خاک سے بیدار ہوا کرتے تھے
جگنوﺅں کی طرح رستے میں رہا کرتے تھے
اب ٹھیرتے ہیں، جو اجڑی ہوئی گلیوں میں کبھی
روک لیتی ہے دریچوں میں سجی حیرانی
تم وہی ہو ناں جو راتوں کو پھرا کرتے تھے
اور ہمیں صبح تک آباد رکھا کرتے تھے
کیا بتائیں در ودیوار کی ویرانی کو
سننے والا ہی نہیں نغمہ گریہ کوئی
رنگ ہے کس کے، چرا کر کوئی جلے جاتا ہے
فصل ہے کس کی، اٹھا کر کوئی لے جاتا ہے
جانے کس عدل کے آسیب میں لپٹی ہے فضا
حق کسی اور کا بنتا ہے جتاتا ہے کوئی!
فیصلہ سخت ہے اب اہل مسافت کے لیے
جانتا کوئی ہے اور راہ بتاتا ہے کوئی!
زندگی تنگ ہے ’خود ساختہ مہمانوں‘ سے
اجنبی ہاتھ لٹکتے ہیں میرے شانوں سے
گھر کے اندر در ودیوار کی وحشت میں رہیں
گھر سے باہرکسی گولی کا نشانہ بن جائیں!
دیکھتے ہیں تو بصارت سے مناظر چھن جائیں
بولتے ہیںتو زبان کاٹ دی جاتی ہے یہاں
پاﺅں میں حلقہ¿ زنجیر کھچا جاتا ہے
ہاتھ اٹھتا ہے کہ شانے سے کٹا جاتا ہے
سانس لیتے ہیں، تو بارود کی بو آتی ہے
بات کرتے ہیں، تو لفظوں کے خزانے اکثر
کبھی معنی سے، کبھی لب سے بچھڑ جاتے ہیں
خواب بھی خواب کی تعبیر میں ملتے ہیں یہاں
دن کو آباد ہوئے، شب کو اجڑ جاتے ہیں
وہی اندوہِ مسافت وہی جگ راتے ہیں
ہم کہ مٹی سے محبت کی سزا پاتے ہیں
جیسے ہم ریت پہ تحریر ہوئے ہیں کہ ہمیں
بادوباراں جہاں جی چاہے بہا کر لے جائے
جیسے ہم پیڑ سے ہم رشتہ نہیں اور ہوا
خشک پتوں کی طرح ہم کو اڑا کر لے جائے
جیسے اس خاک سے نسبت ہی نہیں کوئی ہمیں
اور منظر میں کوئی رنگ نہیں ہے ہم سے
جیسے ہم جرم کی پاداش میں ہیں سوئے ہوئے
مار دیتے ہیں اسے جو بھی جگاتا ہے ہمیں!
جیسے ہم نعرہ¿ تحسین ہیں دیواروں پر
کوئی لکھتا ہے ہمیں کوئی مٹاتا ہے ہمیں
سر سلامت ہے نہ دستار سلامت ہے کوئی
امن کے نام پر ایک سیلِ قیامت ہے کوئی
پھول بے رنگ ہوئے آئینے بے آب ہوئے
کیسے منظر تھے ان آنکھوں میں جو نایاب ہوئے!