Categories
Rizwan Tahir Mubeen Society تہذیب وثقافت رضوان طاہر مبین

سیدہ نقوی ، ہماری ایک مخلص استاد

تحریر:رضوان طاہر مبین

وہ ’ایم اے‘ کی کلاسوں میں ہمارا دوسرا روز تھا یا شاید تیسرا، لیکن وہ ’فنکشنل اردو‘ کی غالباً دوسری ہی کلاس تھی ’اِبلاغ عامہ‘ کا بہ مشکل تین کمروں پر مشتمل جامعہ اردو کا وہ پرانا شعبہ۔ ایک اسکارف اورڑھے، سبز گاﺅن میں ملبوس، دھیمے سے لہجے میں بولنے والی سیدہ نقوی صاحبہ نے آج کلاس میں آتے ہی روایتی انداز میں مسکراتے ہوئے ہم سب کا جائزہ لیا تھا یونیورسٹی میں نوآموز ہم بچوں کے حال چال پوچھتے ہوئے کہا کہ ”یہ کیا کہ سب الگ الگ بیٹھے ہوئے ہیں، اب آپ سب ایک کلاس کے طلبہ ہیں، آپ کو ایک دوسرے سے گھلنا ملنا چاہیے ایک دوسرے سے بات چیت کیجیے، ایک دوسرے کے بارے میں جانیے!“ دراصل انھوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ کلاس میں واضح طور پر دو حصے بنے ہوئے تھے، جس میں ایک طرف لڑکے براجمان تھے، جب کہ دوسری جانب لڑکیوں کا حصہ تھا۔ ابھی ہمیں ایک کلاس میں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے تھے، کہ ہم ایک دوسرے سے واقف ہوتے، پھر لڑکوں اور لڑکیوں کی روایتی جھجھک اور بھی مانع تھی، اس میں بھی کچھ وقت لگتا، لیکن اس روز انھوں نے کلاس میں کیا کیا کہ ہم سب کو دو، دو کر کے ترتیب دیا، جس میں کہا کہ آپ ایک دوسرے سے تعارف لیجیے اور پھر کچھ دیر بعد پوری کلاس کے سامنے باری باری اپنے اپنے ساتھی کا تعارف کرائیے۔ انھوں نے اکثر لڑکے اور لڑکی کو ساجھے دار کیا تھا۔
اس اچانک ’بھونچال‘ سے کلاس میں ایک ہل چل ہی مچ گئی اب کوئی چاہے نہ چاہے، اُسے جس کے ساتھ بٹھایا گیا ہے، اس کے بارے میں بات تو کرنی ہی کرنی ہے۔ باقاعدہ پڑھائی سے ہٹ کر یہ سرگرمی ایک اور طرح ہی کی تعلیم یا تربیت کا ذریعہ بنی، اور ہم لوگ شاید جو دیگر ہم جماعتوں سے گھلنے ملنے میں ابھی مزید کچھ وقت لیتے، اس کلاس میں یک دم بہت سوں کے نام، کام اور دل چسپیاں اور رجحانات وغیرہ جان لیے
اس سے پہلے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ’فنکشنل اردو‘ کی پہلی کلاس میں انھوں نے ہم سب سے یہ سوال کیا تھا کہ ہم نے کیوں اس شعبے کا چناﺅ کیا ہے؟ اس میں بھی غیر روایتی طریقے سے ہمیں کلاس میں مکالمے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ دراصل ان کے پڑھانے کا انداز تھا، جس میں وہ زیادہ سے زیادہ بات چیت کرتیں، سوال وجواب کرتیں، کوئی مصرع، کوئی ضرب المثل، کوئی محاورہ، کوئی مشکل ترکیب چھیڑ دیتیں پھر اس سے زبان وبیان کی گتھیاں سلجھاتی چلی جاتیں۔
کتنی ہی ایسی کلاسیں یادداشت کے دھندلے پردے پر آج بھی نقش ہیں۔ جیسے کسی کلاس میں انھوں نے ’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو…. کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا‘ کے مفاہیم واضح کیے، تو کسی کلاس میں ’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے‘ کا تذکرہ کر دیا۔ ایک بار ”نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا“ کا ذکر چل نکلا اور وہ الفاظ کا برتاﺅ، معانی اور مطلب بتاتی چلی گئیں
یہ محض اتفاق اور واقعی اتفاق ہی تھا کہ ہماری کلاس میں پوزیشن بن گئی، اس کا سارا دوش ہمارے دیگر ہم جماعتوں کے سر ہے، کہ انھوں نے اپنے قدموں کو ہم سے پیچھے رکھا، ورنہ ہم اوسط درجے کے طالب علم کی کہاں اتنی بساط تھی کہ پچاس سے زیادہ بچوں کی کلاس بھر میں اول پوزیشن پاتے۔ یہی حال کچھ اردو کے معاملے میں بھی ہوا۔ پہلی، دوسری کلاس ہی سے انھیں معلوم ہوگیا کہ ہماری اردو دیگر ساتھیوں سے بہتر ہے، بس پھر وہ ہم سے خصوصی مشفقانہ برتاﺅ کرتیں اور کسی لفظ کے معانی باقی کلاس کو نہ پتا ہوتے تو اعتماد سے ہماری جانب متوجہ ہوتیں، بس اللہ نے عزت رکھی کہ ان کے بھروسے کا بھرم رہ جاتا۔ اچھی اردو سے خیال آیا کہ ایک کلاس میں زبان وبیان کی غلطیوں کے حوالے سے انھوں نے چار، پانچ کے گروپ بنا کر ان سے تبادلہ خیال کرایا اور پھر باری باری ہر گروپ کے حاصل کلام کو ’روسٹرم‘ پر بلا کر سنا تھا اور ہمیں گویا اردو کے حوالے سے اپنی بات کرنے کا ایک بھلا موقع مل گیا تھا۔
یہ بھی اتفاق تھا کہ عملی صحافت میں موجود دو، چار ہم جماعتوں کے سوا باقی اور کوئی طالب علم ایسا نہ تھا کہ جو باقاعدگی سے کچھ لکھ رہا ہو، جب کہ ہماری ’ایکسپریس‘ میں مراسلہ نگاری کا سلسلہ لگ بھگ دو سال سے جاری تھا، وہ اس سے بھی بہت متاثر ہوئیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک کلاس میں انھوں نے خاکہ نگاری کے رموز سے واقف کرایا، کسی کی شخصیت کو لفظوں میں بیان کرنے کے لیے کیسی تشبیہات اور علامات کا سہارا لیا جاتا ہے، ان سب سے آگاہ کیا۔ ’فنکشنل اردو‘ کے امتحان میں ہمارے 91 نمبر آئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ’دھمکی‘ دی تھی کہ معروضی سوالات میں غلط جواب پر ’منفی نشان زدگی‘ کریں گی، یعنی ایک غلطی پر ایک نمبر غلطی کو و کٹے گا ہی، ایک اضافی نمبر منہا ہوجائے گا، اسی ڈر سے ہم نے چار پانچ نکات کو دانستہ چھوڑ دیے تھے، لیکن میم نے بتایا کہ وہ تو انھوں نے امتحان کے روز یونھی کہہ دیا تھا، تاکہ بچے تُکے نہ لگائیں۔
کہنے کو وہ صرف ’فنکشنل اردو‘ ہی پڑھاتی تھیں، لیکن عملی صحافت اور ریڈیو پروگرامنگ وغیرہ بھی ان کے خاص میدان تھے، وہ بار بار زور دیتی تھیں کہ آپ اپنے اس وقت کو نہ گنوائیے، کچھ لکھنا شروع کیجیے، کہیں انٹرن شپ کیجیے، آپ کو فلاں رسالے، اخبار یا چینل میں جانا چاہیے، کلاس کے کتنے ہی طلبہ ان کی وساطت سے ریڈیو پاکستان کے ’بزمِ طلبہ‘ میں شریک ہوئے تھے۔ کتنوں نے ان کے حوالے سے مختلف اداروں سے وابستگی اختیار کی تھی، اس کے ساتھ ساتھ مشہور شخصیات سے جا کر ملنا اور ان کے انٹرویو کرنے پر زور دیتیں کہ ان بڑی اور نام وَر شخصیات کو اپنے درمیان غنیمت جانو، اور جلد سے جلد ان سے جا کر ملو، ان کے تجربات سے سیکھو۔
وہ ہمیں کلاس میں کھل کر بولنے کا موقع دیتیں اور ہم سب آزادی سے سوالات کرتے اور اپنی تجاویز بھی دیتے۔ کلاس کی لڑکیوں کے لیے ان کی خصوصی نصیحت ہوتی تھی کہ دفاتر میں کام ضرور کیجیے، لیکن اپنے وقار اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کیجیے، اگر آپ نے یہ طے کیا ہے کہ آپ کو سر ڈھانپنا ہے اور مردوں سے ہاتھ نہیں ملانا، تو چاہے دفتر کا ماحول کیسا بھی ہو، وہاں اپنے اس حق کی پاس داری کرائیے!
ایک دن کیا ہوا، وہ کلاس میں ابھی آئی ہی تھیں کہ اچانک ان کے پاس کوئی کال آگئی اور وہ بنا کچھ کہے، اپنا بیگ اٹھا کر اسٹاف روم میں جاکر بیٹھ گئیں۔ ہم سب پریشان کہ الٰہی، یہ کیا ماجرا ہے؟ اسٹاف روم میں جاکر دیکھا تو وہ آب دیدہ اور شدید پریشان کیفیت میں ایک طرف سر پکڑے ہوئے بیٹھی ہیں، کچھ لڑکیوں کی وساطت سے پتا چلا کہ انھیں ابھی ابھی اپنی کسی عزیز سہیلی کے انتقال کی خبر ملی ہے، جس کے بعد ان کے لیے کلاس جاری رکھنا ممکن نہ رہ سکا۔
’عالمی اردو کانفرنس‘ ہوئی تو انھوں نے ہمیں اس میں بطور ’رضاکار‘ شمولیت کی تحریک دی، اور یہ ہماری زندگی کا ایک منفرد تجربہ ثابت ہوا۔ ایک چھت تلے ہم نے پہلی بار اتنے بے شمار ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور اساتذہ کو قریب سے دیکھا اور سنا تھا۔ تب نسبتاً کم اور سلجھے ہوئے لوگ ہی ان کانفرنسوں میں آتے تھے، تبھی اس کانفرنس میں بھی بنگلادیش، ایران، ہندوستان اور یورپ وغیرہ سے آئے ہوئے معزز مہمانان بغیر کسی روک ٹوک کے پوری سہولت سے ہم طلبہ کے ساتھ گھوم رہے تھے، بات چیت کر رہے تھے اور ہمارے تیکھے سوالات کے جواب بھی دے رہے تھے۔
وہ ’جامعہ اردو‘ میں مہمان استاد تھیںِ، یعنی وزیٹنگ فیکلٹی پھر شاید ان کی وہاں تدریس کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور پھر ہمارے ایم اے کے دو سال بھی مکمل ہوگئے، ان سمیت ہر استاد کا نمبر ڈائری میں درج اور ہر فون میں محفوظ ہوتا رہا، رابطہ بھی رہا۔ لیکن جامعہ کے بعد کبھی بہت تفصیل سے گفتگو یا ملاقات کا موقع نہ مل سکا، ہم ’ایکسپریس‘ آگئے، انھیں اس کی خبر تھی، کہ اس سے پہلے ان کے بہتیرے شاگرد ’شعبہ میگزین‘ کے لیے خدمات دیتے رہے، وقت گزرتا گیا۔ ہم اپنے دفتر میں سب سے جونیر ہونے کے باوجود اپنے شعبے میں سینئر ہونے لگے۔ یعنی کہ نئے آنے والے دیگر چینلوں اور اخباروں میں رپورٹروں، لکھنے والوں اور شعبہ صحافت سے وابستہ احباب نے ہم سے زبان وبیان کے حوالے سے مدد لینی شروع کی، یا شاید ہم بھی خود سے اپنے چھوٹوں کی کوئی غلطی دیکھتے تو بتا دیتے، کبھی زبان وبیان کی غلطی، تذکیر وتانیث، کبھی قواعد اور کبھی املے وتلفظ کی۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو لگنے لگا کہ ہماری اردو بہت اچھی ہے، لیکن دراصل معاملہ وہی یونیورسٹی کی کلاس والا ہی تھا کہ لوگ اچھی زبان سے منہ موڑتے چلے گئے اور ہم جیسے ’بونے‘ لوگ اس میدان میں ’قدآور‘ لگنے لگے۔ ہماری اس اردو کو ’ایم اے‘ کے آخری درجے میں سنوارنے اور اسے اعتماد دینے کا سہرا میم سدہ نقوی کے سر ہے۔ ابھی کچھ عرصے قبل جب ہم اتفاقاً دفتر میں نہ تھے، انھوں نے دفتر کال کی تھی، ان سے شاید ہمارا نمبر کہیں کھو گیا تھا، ہمیں دفتر آتے ہی ان کا پیغام ملا، تو ہم نے کئی بار رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن کام یابی نہ ہو سکی۔ ہم نے ان کی مصروفیت کو اس کا سبب جانا اور پھر کچھ دن بعد فون کرنے کا قصد کیا، لیکن روزی روٹی کی گردشوں میں چکرائے، بولائے بولائے، جہاں اور بہت سے فرائض بھولے، اس ذمہ داری سے بھی چُوک گئے!
پھر منگل دو جنوری 2024ءکو ’فیس بک’ پر اچانک ان کی شدید علالت کی خبر اُبھری اور دل میں ایک کسک اٹھ کر رہ گئی، کیا یہ وہی سیدہ نقوی ہیں؟ اِدھر اُدھر سے دریافت کیا، اندازہ یہی ہوا، آخر ان کے نمبر پر کال کی۔ صاحب زادے فیضان سے اپنا تعارف کرایا، خیریت دریافت کی تو حالت تشویش ناک ہونے کی اطلاع ملی کہ گذشتہ روز باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے ’بریم ہیمرج‘ کے سبب طبیعت بگڑی، جس کے بعد وہ ’کومے‘ میں چلی گئیں دل سے دعا تھی کہ اللہ انھیں صحت وعافیت کے ساتھ زندگی کی جانب لوٹا دے لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ چھے جنوری کی صبح وہ خبر سامنے آگئی، جسے ہم سب سننا نہیں چاہتے تھے میم سیدہ نقوی ہم میں نہیں رہیں! عجیب شش وپنج کی کیفیت رہی۔ میم کی ہم سے بات کرنے کے لیے کی گئی کال اور ہمارا دفتر میں موجود نہ ہونا ایک اور دائمی رنج بن کر رہ گیا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میم اتنے جلدی اللہ میاں کے ہاں چلی جائیں گی، لیکن اب ہمارے پاس بے بسی کے سوا کیا ہے اور اس دعا کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اگلے جہاں کی مشکلیں آسان فرمائے، آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *