Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi Society تہذیب وثقافت دل چسپ سمے وار- راہ نمائی

راشن نہ دیجیے، زکوۃ لینے والے کو خود کفیل بنائیے

تحریر: فواد رضا
رمضان آرہے ہیں، اگر مڈل کلاس کے چند لوگ مل کر کسی ایک گھرانے کے مسلسل روزگار کا انتظام کردیں تو اگلے سال رمضان میں ایک زکوۃ کا مستحق کم ہوسکتا ہے۔
لیکن امداد میں چیک اینڈ بیلنس رکھیں!
کسی کے ہاتھ میں پیسے نہ دیں، اسے کاروبار کروا کردیں، اور پکی کاغذی کارروائی کروائیں۔
جیسے اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے بائیک دلوادو میں بائیکیا یا فوڈ ڈیلیوری کرکے اپنا سسٹم چلا لوں گا۔ بالکل دیں ، لیکن بائیک کے کاغذات اپنے نام پر رکھیں، ورنہ اس بائیک نے بک جانا ہے۔
رمضان کا مقصد صرف اپنی جیب سے پیسے نکال کر بھول جانا نہیں ہے، زکوۃ کا مقصد یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے کہ معاشرے میں زکوۃ لینے والے نہ رہیں۔
اور یہ کب ممکن ہوگا!!
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب زکوۃ اور صدقات منظم انداز میں دیے جائیں۔
راشن کے تھیلے اور غریب کی بیٹیوں کی شادی کروانا بند کردیں۔ یہ غریب آپ کو ہر این جی او سے راشن لیتے نظر آئیں گے، ان میں سے کوئی قابل شخص ڈھونڈیں۔ اسکے روزگار کا بندوبست کریں۔
میں آپ کو ایک واقعہ سنا دیتا ہوں!!
ہم چند دوستوں نےایک صاحب کورکشا لے کر دیا، وہ تین مہینے بعد آکر کھڑے ہوگئے کہ یہ خراب ہوگیا، دوسرا لے دیں۔
ان سے وہ رکشا واپس لیا ، مرمت کروائی اور ایک اور شخص کو وہی رکشا دیا۔
وہ ذہین اور ایماندار آدمی تھا، سال بھر میں اس نے اتنی رقم جمع کرلی کہ ایک اور رکشا لے کر کرائے پر دے دیا۔ ابھی سنا ہے اس نے کوئی مکینک کی دوکان بنالی ہے اور رکشے اس کے کرائے پر چلتے ہیں، اور وہ اپنی برداشت کے مطابق آگے امداد کا سرکل بھی چلا رہا ہے۔
سو امداد کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ بندا ضرورت مند ہے، محض وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرپارہا، یا عادی مانگنے والا ہے۔
عادی مانگنے والے اور محنتی کی واضح نشانیاں ہیں۔ محنتی جب آپ تک پہنچے گا تو وہ پہلے سے کچھ نہ کچھ کررہا ہوگا، بس اپنا سسٹم بیلنس نہیں کرپارہا ہوگا۔ بعض اوقات تو وہ بندا صرف گائیڈ کردینے سے ہی سنبھل جاتا ہے۔
جو بھائی عادی ہوں گے، وہ بالکل ویلے گھر پر بیٹھے ہوں گے، انہیں کوئی جاب آفر کریں، وہ فوری طور پر اس پر ہاں نہیں کرے گا، بہت سے سوالات کرے گا، بہانے بنایے گا کہ دور ہے، بس نہیں جاتی ، جانے کے لیے موٹر سائیکل چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
ایک کام اگر این جی اوز والے کرلیں تو ان کی بھی بڑی مہربانی ہوگی، یہ لوگ اگر آپس میں ڈیٹا شیئرنگ شروع کردیں تو ان کا خود پر اور معاشرے پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
ابھی کیا ہوتا ہے کہ ایک بندا ہر این جی او سے راشن جمع کرتا ہے اور محلے کی پرچون کی دوکان پر اونے پونے بیچ دیتا ہے۔۔ ڈیٹا شیئرنگ کوئی مشکل کام نہیں، ہر این جی او اپنے پاس امداد حاصل کرنے والوں کا ڈیڑا رکھتی ہے، اکثریت کا ڈیٹا ڈیجیٹل ہے، صرف ایک بنے بنائے سافٹ ویئر کو کسٹامائز کرنا ہے کہ بندے کا شناختی کارڈ نمبر ڈال کر چیک کیا جاسکے کہ وہ کہاں کہاں سے امداد لے رہا ہے۔
حکومت اگر یہ کام خود کرلے تو زیادہ اچھی بات ہوگی کہ این جی اوز کو پابند کردے کہ امداد حاصل کرنے والوں کا ڈیٹا ایک پورٹل پر ڈالا جائے۔
پاکستان میں جس پیمانے پر زکوۃ خیرات اور صدقات دیے جاتے ہیں، یورپ اور امریکا جیسے امیر ملک اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن یہ سارا پیسا مناسب سسٹم نہ ہونے کے سبب ضائع ہورہا ہے۔
اوورسیز پاکستانی بھی بہت پیسے امداد میں ضائع کرتے ہیں، اس کے بجائے اگر وہ طے کرلیں کہ کسی ایک بچے کو انہوں نے اعلی اور معیاری تعلیم دلوانی ہے، لاکھوں لوگ پردیس میں بیٹھے ہیں، سوچیں اگر ترقی یافتہ ممالک میں مقیم پاکستانی ایک بچے کی او اور اے لیولز تک کی تعلیم کا ذمہ اٹھالیں تو ایک خاندان چند سال بعد سنور جانا ہے۔۔ اس میں بھی چیک اینڈ بیلنس رکھیں، اس بچے کواو لیولز کے بعد پابند کریں کہ وہ کچھ نہ کچھ کرے، اگر پڑھائی کے ساتھ کام نہیں کرسکتا تو اس کی ذمہ داری لگادیں کہ وہ اپنے جیسے کسی بچے کو او لیولز کی تیاری کرائے اور اس کے رزلٹس کہ ذمہ داری لے۔
اصل بات ذمہ داری کی ہے، ہم بطور قوم ایک ذمہ دار معاشرہ نہیں ہیں، ریاست ، حکومت ، سماج اور خاندان، کسی بھی یونٹ پر سماجی ذمہ داری ڈھنگ سے ادا نہیں کی جارہی۔
یم ایک بے ہنگم قوم ہیں جسے سب سے زیادہ ضرورت درست سمت میں آگے بڑھنے کی ہے۔
وما علینا الاالبلاغ
نوٹ: یہ پوسٹ پڑھ کر مجھ سے انباکس میں کچھ بھی مانگنے کی کوشش نہ کریں، میں نے یہ سب جو لکھا ہے، پہلے عمل کرکے ٹرائی کیا ہے اور اس کے بعد ہی لکھا ہے۔
بطور اوورسیز میری ایک ‘اوقات’ ہے اور میں اپنی اس حیثیت کے مطابق کام کررہا ہوں، مزید میں کویی ذمہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *