Categories
انکشاف

ایکسپریس‘ کے سابق کالم نگار ظہیر اختر بیدری انتقال کرگئے

سمے وار (رپورٹ: رضوان طاہر مبین)
روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے سابق کالم نگار اور ادیب ظہیر اختر بیدری 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ 28 دسمبر بروز ہفتے کو بعد نمازِ ظہر دارالعلوم کراچی میں ادا کی گئی اور مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ انھوں نے 2003ءمیں ’ایکسپریس‘ میں ’اگر اجازت ہو‘ کے عنوان سے کالم نگاری شروع کی، جو کچھ عرصے قبل ان کی علالت تک جاری رہی۔ 2017ءمیں ’ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق وہ 1938ءمیں حیدر آباد (دکن) میں پیدا ہوئے، اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، 1953ءمیں کراچی ہجرت کے بعد انھوں نے حیدرآباد (دکن) کے وزیراعظم میر لائق علی کی جانب سے مہاجرین کے روزگار کے لیے قائم کردہ صنعت میں ملازمت کی، ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور میٹرک کے بعد سیاسیات اور صحافت میں ’ایم اے‘ کیے۔ ظہیر اختر بیدری ’نیشنل عوامی پارٹی‘ (نیپ) کاحصہ رہے اور ’متحدہ مزدور فیڈریشن‘ میں بھی متحرک رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ان کے گرفتاری کے وارنٹ نکلے تو اس دوران اہل خانہ نے پولیس کے ڈر سے، ان کی تحریریں جلا دیں، جس میں بدقسمتی سے ایک ناول اور 14 افسانوں کے مسودات بھی نذر آتش ہوگئے، جو ابھی شائع ہونے تھے۔ انھوں نے یحییٰ خان کے دور میں مارشل لا عدالت سے سزا بھی بھگتی، رہائی کے بعد فیض احمد فیض کے توسط سے ہفت روزہ ’لیل ونہار‘ چلے گئے، جہاں حسن عابدی ودیگر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، 1972ءتا 1974ءابراہیم جلیس کے ہفت روزہ ’عوامی عدالت‘ سے منسلک رہے۔ کالم نگاری کا سلسلہ 1965ءمیں ’پی آئی اے‘ کے پرچے ’منشور‘ سے شروع کیا، 1970ءکی دہائی میں ’حریت‘ اور 1982ءمیں ’جنگ‘ کے لیے لکھنا شروع کیا، مختلف رسائل میں بھی لکھتے رہے۔ 1992ءمیں ماہ نامہ ’فردا‘ نکالا، جو 10 برس جاری رہا۔ 1992ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’ستائے ہوئے لوگ‘ شایع ہوا، اس کے بعد ’آسمان سے آگے‘، ’ریت کے بگولے‘، ’صدیوں کے سراب‘، ’آخر شب‘، ’داغ داغ اجالا‘ اور ’ریگزار‘ سمیت افسانوں کی نو کتابیں آئیں، جب کہ کالموں کے دو مجموعے بہ عنوان ’زبان خلق‘ اور ’صدابصحر‘ شائع ہوئے۔
(بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *