Categories
رضوان طاہر مبین رمضان

رمضانوں میں آنے والی وہ مخصوص ’خوش بو‘ کہیں کھو گئی!

رضوان طاہر مبین
رمضانوں میں خوش بوﺅں کی بات تو سبھی کے سمجھ میں آئی ہوگی کہ اس مہینے میں طرح طرح کے پکوان جو تیار کیے جاتے ہیں، سحری میں اگر روایتی کھجلے اور پھینی کی رونق ہوتی ہے، تو روزہ کھولتے ہوئے سموسے، جلیبی، بیسنی پکوڑے، پھلکیاں، چھولے، دہی بڑے، فروٹ چاٹ وغیرہ وغیرہ کا اہتمام بڑے ذوق شوق سے کیا جاتا ہے اور واقعی ان لوازمات کی بھینی بھینی سی خوش بو روزے دار گھرانوں میں ایک الگ طرح کا ماحول بنا رہی ہوتی ہے، لیکن ہم یہاں قطعی طور پر ایسی کسی بھی خوش بو کی بات نہیں کر رہے!
رمضان کی اس مخصوص ’خوش بو‘ کا تعلق نہ ہی لگائے جانے والی عطریات سے ہے اور نہ ہی کسی کھانے کی چیز سے لیکن پھر بھی ابھی چند برس پہلے یعنی ہمارے بچپن کے زمانوں تک اس خوش بو کا وجود ماہِ صیام سے ایسے جڑا ہوا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ شاید اس کے بغیر رمضان لگیں گے ہی نہیں۔۔۔! ہر چند کہ اس کا تعلق بالکل بھی رمضان سے نہیں، لیکن جوں ہی رمضان کی پہلی ہوتی، ویسے ہی ہمارے گلی کوچے اس کی مہک میں بسنے لگتے یعنی روزہ کھلنے کے بعد کبھی آپ کے ذہن سے اگر یہ نکل گیا ہو کہ رمضان المبارک ہیں، تو یہ خوش بو آپ کے نتھنوں سے ٹکرائے گی اور فوراً آپ کو یاد آجائے گا کہ اچھا اچھا، یہ رمضانوں کے دن ہیں۔۔۔!
ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس کا تعلق رمضان سے بن گیا تھا، ورنہ اِسے آپ رمضان کے تقدس کے لحاظ سے ایک ’معیوب‘ چیز بھی قرار دے سکتے ہیں۔۔۔! اگر آپ آٹھ، دس یا بارہ سال پہلے کے رمضان ذہن میں لائیں، تو عین ممکن ہے کہ اپنے گلی مُحلّوں میں آپ نے بھی اس خوش بو کو محسوس کیا ہو، اور وہ مخصوص خوش بو ہوتی تھی جامن کے خشک پتوں میں لپٹی ہوئی سونف کی بیڑی کی خوش بو۔۔۔!
ہم نے آپ سے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ اس کا ’رمضان المبارک‘ سے براہ راست کوئی سمبندھ نہیں، لیکن نہ جانے کیوں سونف کی اِس بیڑی کا روزے رمضانوں سے یہ ایسا تعلق بن گیا تھا کہ بہت سے چھوٹے لڑکے بالے روزہ کھلنے کے بعد اس ’شوق‘ میں مبتلا دکھائی دیتے۔۔۔ اور یہ سب باقاعدہ ہر سال رمضان کی آمد پر اچانک ہوتا تھا، جیسے ہی یکم رمضان ہوئی، ویسے ہی آپ کو گزرتے بڑھتے کئی جگہ یہ مہک محسوس ہونے لگی اور رمضان کے بعد پھر فوراً یہ سلسلہ موقوف ہو جاتا اور پھر اگلے رمضان تک شاذونادر ہی کہیں سے آپ کو سونف کی بیڑی کی خوش بو سونگھنے میں آتی تھی۔ مگرکہنے کی بات یہ ہے کہ جیسے پہلے پان کی دکانوں پر سونف کی بیڑی کے چلن ہو جانے کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آتی تھی، اب ویسے ہی اس کا چلن باقی نہ رہنے کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آتا۔ اب اچھا یا برا، رمضان کی ایک منفرد سی مہک کے باب میں ہماری یادوں میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ خوش بو محفوظ ضرور ہو گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *